معاشی بحران کا بوجھ بے روزگار اور غریب عوام کی بجائے مراعات یافتہ طبقے پر ڈالا جائے، علامہ ساجد علی نقوی
ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کے ہونیوالے معاہدے، بھاری بھرکم ٹیکسز اور منی بجٹ کی اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔

شیعیت نیوز: شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر ہر نو کی مراعات اوروی وی آئی پی پروٹوکولز کو اسراف قرار دیتے ہوئے فوری طور پر واپس لینے کی تجویز دیدی، وفاقی حکومت عوامی مشکلات کے پیش نظر آئی ایم ایف کی شرائط مہنگائی، بے روزگاری اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار عوام پر ڈالنے کی بجائے ہر دور میں مراعات اور پروٹوکولز لینے والے طبقات افراد پر ڈالے اور ٹیکسز کے نظام کو مضبوط اور شفاف بنایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کے ہونیوالے معاہدے، بھاری بھرکم ٹیکسز اور منی بجٹ کی اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔
علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ ملک کو جو آج معاشی ایمرجنسی کا سامنا ہے یہ سب کچھ اچانک نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ حقیقت کو نظر انداز کرنے، بہتر انداز میں پالیسیاں مرتب نہ کرنے اور معاملات کو بگاڑنے کے سبب ہوا، اسی وجہ سے انتہائی مشکل ترین معاشی صورتحال میں آئی ایم ایف کے ساتھ اس کی شرائط پر معاہدہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ملکی معاشی مشکلات کو سمجھتے ہیں، صورتحال کسی صورت بھی بہتر نہیں البتہ بہتری کیلئے اقدامات ضروری ہیں، ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا جس کیلئے بلاشبہ مشکل ترین فیصلے ضروری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی شہرت یافتہ معروف میزبان، صداکار و ہدایت کار ضیاء محی الدین انتقال کرگئے، نماز جنازہ امام بارگاہ یثرب میں ادا
انہوں نے کہا کہ البتہ اسکا بوجھ ہر بار کیطرح ایک مرتبہ پھر غریب عوام خصوصاً خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں، مہنگائی، بے روزگاری اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار عوام پر ڈالنے کی بجائے ان طبقات اور افراد پر ڈالا جائے جنہوں نے ہر دور میں پروٹوکولز اور مراعات لیں، ملک کی مجموعی معاشی صورتحال تقاضا کررہی ہے کہ تمام غیر ضروری اخراجات، مراعات اور پروٹوکولز کو ختم کیا جائے اور وی وی آئی پی کلچر کو ختم کرتے ہوئے قومی خزانے سے ہر ایک کو برابر مواقع فراہم کیے جائیں۔ آمد و خرچ میں شفافیت کو مد نظر رکھا جائے، کفایت شعاری اور سادگی کی پالیسی اپنائی جائے تاکہ ملک کو اس مشکل معاشی صورتحال سے نکالا جاسکے اور اس کے ساتھ ساتھ مستقبل کی پیش بندی کےلئے ابھی سے پالیسیوں کا اجرا کیا جائے اور کم از کم دس سالہ معاشی پلان بغیر کسی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا جائے ملک میں بہت سے قدرتی وسائل ہیں جنہیں بروئے کار لاکر معاشی صورتحال کو بہتر کیا جاسکتا ہے، خصوصاً شعبہ زراعت، شعبہ سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، رسمی تعلیم کیساتھ ساتھ ہنر مندی کی تربیت اور متبادل توانائی کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ سمال انڈسٹریز کو بہتر مواقع فراہم کرتے ہوئے نہ صرف ریاست کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے بلکہ ہنر مند افرادی قوت ریاست کا کارآمد حصہ بننے کیساتھ ساتھ خود بھی معاشی طور پر خود کفالت کی جانب بڑھے گی۔