دنیا

فلسطینیوں کی آواز دبانے کے لیے مکروہ ہتھکنڈوں کا استعمال عروج پر

شیعیت نیوز: صدا سوشل سینٹر فار فلسطینی ڈیجیٹل رائٹس نے کہا ہے کہ اس نے ڈیجیٹل اور فلسطینی مواد کے خلاف 1,230 سے زیادہ خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی ہے اور فلسطینیوں کی آواز دبانے میں سب سے زیادہ ’’میٹا‘‘ (فیس بک) کمپنی رہی جس کی فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ پلیٹ فارمزنے فلسطینی مواد کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کیں۔

ڈیجیٹل اسپیس میں فلسطینی مواد کی خلاف ورزیوں کی دستاویز کرنے والی سالانہ رپورٹ کا اعلان کرنے کے لیے رام اللہ میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران مرکز نے تصدیق کی کہ گذشتہ سال 2022 نے ڈیجیٹل اسپیس میں فلسطین کی ناکہ بندی کرنے کی کوششوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ قابض ریاست کی نسل پرستانہ پالیسیوں کے ساتھ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پربھی فلسطینیوں کی آوازدبانے کے لیے حربے استعمال کیے گئے۔

مرکز نے واضح کیا کہ اس سال کا سب سے خطرناک اشارہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کمپنیوں کا قابض سکیورٹی اداروں کو خدمات فراہم کرنے کا رجحان ہے جسے وہ فلسطینیوں کی آواز دبانے اور ان کی جاسوسی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : پشاور دہشت گردی کے ذمہ داروں اور سرپرستوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، اقوام متحدہ

رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ خلاف ورزیوں میں اکاؤنٹس اور صفحات کو بند کرنا اور حذف کرنا، اشاعت پر پابندی لگانا، لائیو نشریات، اشتہارات، مواد کو ہٹانا، رسائی اور فالو اپ پر پابندی لگانا، اشاعت پر پابندیاں لگانا، نمبروں پر پابندی لگانا اور واٹس ایپ جیسے چیٹ پلیٹ فارم پر گروپس کو حذف کرنا شامل ہیں۔

مرکز نے فلسطینی صحافیوں کو مسلسل نشانہ بنائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے برس 58 فیصد خلاف ورزیاں صحافیوں اور میڈیا اداروں کے خلاف کی گئیں۔ یہ خلاف ورزیاں سوشل میڈیا پر اپنے پیجز پر شائع ہونے والی چیزوں سے متعلق یا فلسطینی علاقوں میں ہونے والے واقعات کی کوریج میں ان کے کام سے متعلق تھیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ متن کی شکل میں شائع ہونے والا مواد خلاف ورزیوں کے فیصد کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے جو تمام خلاف ورزیوں کا 33 فی صد ہے۔اس کے بعد تصاویر کا تناسب 29 فی صد، ویڈیوز کا 18 فی صد اور لائیو نشریات اور تبصرے دونوں کے کا تقریباً ایک فی صد ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘‘META’’ انتظامیہ نے الگورتھم میں شامل پابندی کی فہرستوں میں فلسطینی اصطلاحات کو شامل کیا ہے، کیونکہ ان فہرستوں میں فلسطینی قومی نام اور نشانات، تاریخی شخصیات، سیاسی جماعتیں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سرگرم شہری انجمنیں اور ادارے شامل ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے دہشت گردی کی اصطلاحات کو الگورتھم میں شامل کیا گیا اور فلسطینی شہریوں کے عربی ناموں کی جگہ عبرانی ناموں کی ترویج کی کی گئی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button