دنیا

ایلات و ڈیمونا انصاراللہ کی براہ راست زد میں ہیں، امریکی مجلے المانیتور

شیعیت نیوز: عربی زبان کے امریکی مجلے المانیتور نے اپنی تازہ رپورٹ میں اماراتی دارالحکومت کے خلاف یمن کی ڈرون طیاروں و بیلسٹک میزائلوں پر مبنی جوابی کارروائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعلق رکھنے والے صیہونی تجزیہ نگاروں کے زبانی لکھا ہے کہ اب ثابت ہو چکا ہے کہ حوثی، اسرائیل کی ایلات بندرگاہ اور ڈیمونا جوہری تنصیبات کو بآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔

المانیتور نے لکھا کہ وہ (صیہونی) اس حملے سے گہرے دھچکے کے عالم میں ہیں جبکہ ایک اعلی سطحی اسرائیلی سکیورٹی عہدیدار نے نام فاش نہ کرنے کی شرط پر المانیتور کے ساتھ گفتگو کی اور 17 جنوری کے روز اماراتی دارالحکومت پر ہونے والے اس (جوابی) حملے کہ جس کی ذمہ داری یمن کے حوثیوں نے قبول کی تھی، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ یہ ایک انتہائی حیران کن اور دلیرانہ حملہ تھا تاہم وہ (اماراتی) بھی 5 میں سے 3 ڈرون طیاروں کو ٹریک کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے!

رپورٹ کے مطابق صیہونی سکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ ان میں سے ایک (ابوظہبی کے) لوور میوزیم جبکہ دوسرے 2 باقی تزویراتی اہداف کو نشانہ بنانے کے درپے تھے۔

امریکی مجلے نے لکھا کہ باوجود اس کے کہ اس جوابی حملے میں 3 افراد ہلاک اور متعدد آئل ٹینکر تباہ ہوئے ہیں، اس صیہونی سکیورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ امارات معجزانہ طور پر ایک بڑے نقصان سے بچ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان یمنی جنگ سے باوقار اخراج کے خواہاں ہیں

المانیتور نے لکھا کہ انصاراللہ یمن کا جوابی حملہ اس قدر قوی و حیران کن تھا کہ پہلے تو صیہونیوں کو یقین ہی نہیں آیا کہ یمنیوں کی جانب سے بھی ایسا حملہ کیا جا سکتا ہے لہذا وہ افواہیں گھڑنے پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ یہ حملہ ایران نے کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک اور صیہونی اعلی عہدیدار نے بھی نام فاش نہ کرنے کی شرط پر المانیتور کے سامنے تاکید کی کہ یہ حملہ دراصل ایران نے کیا ہے کیونکہ یمنی ایسا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے!

امریکی ای مجلے نے لکھا کہ ابوظہبی پر ہونے والا حملہ صیہونیوں کے لئے ایک عملی تنبیہ کے مترادف ہے کیونکہ ایلات بندرگاہ اور ڈیمونا جوہری تنصیبات حوثیوں کے اہداف کی فہرست میں شامل ہیں درحالیکہ اب وہ 2000 کلومیٹر سے بھی زیادہ رینج کے حامل ڈرون طیاروں اور میزائلوں کے ساتھ حملوں اور ان کے نشانے کے عین اوپر مارنے میں انتہائی مہارت کے حامل بھی ہو چکے ہیں۔

المانیتور نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا کہ کہا ابوظہبی پر یمن کا جوابی حملہ صیہونیوں کے لئے ایک تنبیہ تھا جس کا پیغام یہ ہے کہ یمنی اب امارات کے مزید حساس مقامات کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انگریزی ای مجلے نے لکھا کہ لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات و سعودی شاہی حکومت سے بھی بڑھ کر اس حملے سے اسرائیلی حکومت ڈری ہے کیونکہ اس کے بعد تل ابیب کے اعلی فوجی و دفاعی عہدیداروں نے اس حملے کے حوالے سے متعدد و طویل جلسات رکھے ہیں جن میں اس حملے کے آپریشنل پہلوؤں اور اس کے نتائج کا تجزیہ و تحلیل کیا گیا جبکہ دوسری جانب ان حملوں کے بعد صیہونی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے اماراتی ولی عہد محمد بن زائد کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کی اور اپنی مدد کی پیشکش دی۔

اس حوالے سے امریکی مجلے نے آگاہ یورپی سفارتی ذرائع سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اماراتی حکام، یمن کے جوابی حملے سے حیران و پریشان ہو گئے تھے جبکہ اب وہ جانتے ہیں کہ یمنیوں کے پاس پیشرفتہ اسلحہ موجود ہے۔ المانیتور کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ امارات کے پاس، نشانے کے عین اوپر مار کرنے والے یمنی تباہ کن ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے مقابلے کے لئے کافی اسلحہ موجود نہیں۔

اس حوالے سے ایک اور صیہونی سکیورٹی عہدیدار نے بھی نام فاش نہ کرنے کی شرط پر المانیتور کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسرائیل اپنا آئرن ڈوم نامی دفاعی میزائل سسٹم امارات کو دے گا یا نہیں؟ کہا کہ ایسا نہیں کہ کیا ہم دینا چاہتے ہیں یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم دے سکتے ہیں یا نہیں! اس نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے کہ جس میں امریکہ کی جانب سے ان سسٹموں کی تشکیل اور سرٹیفیکیٹ کا صدور شامل ہے جبکہ یہ سب کچھ راتوں راتوں ہی مکمل نہیں ہو سکتا۔ پھر اس نے کہا کہ ابھی فی الحال ان حملوں سے بچنے کے لئے امارات کے پاس کوئی رستہ نہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button