پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین، اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے، ویلادیمیر پوٹن

شیعیت نیوز: روس کے صدر ویلادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور فنکارانہ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ سمیت دیگر مذہبی شخصیات کی گستاخی کا لائسنس مل گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق روسی صدر ویلادیمیر پوٹن نے سالانہ پریس کانفرنس کے موقع پر مذہبی آزادی میں رکاوٹ کے بغیر فنکارانہ اظہار کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کا فنکارانہ آزادی ضروری ہے، تاہم دوسروں کے جذبات اور مقدسات کا احترام رکھنا بھی ضروری ہے۔
روسی صدر نے مزید کہا کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی آزادی اظہار نہیں۔ ہمیں دوسروں کی دل آزاری سے بچنا چاہیئے، کسی کی دل آزاری مجرمانہ عمل ہے۔
روسی صدر پوٹن نے کہا ہے کہ فنکارانہ آزادی کی اپنی حدود ہیں اور اس سے کسی دوسرے کی آزادیوں کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیئے۔ مذہبی شخصیات کی اہانت آمیز تصاویر ان کے چاہنے والوں کو تشدد پر اکسانے کا باعث بنتی ہیں۔
اس موقع پر روسی صدر نے چارلی ہیبڈو میگزین کے ادارتی دفتر پر پیغمبر اسلام ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور اس کے نتیجے میں میگزین کے دفتر پر حملے کا حوالہ بھی دیا۔
روسی صدر کے ریمارکس کا حوالہ شاید مغربی ممالک بالخصوص فرانس کی بعض اسلام مخالف پالیسیوں کا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں چارلی ہیبڈو میگزین نے ماضی کی گستاخی کو دہراتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کی توہین کرنے والا ایک متنازعہ کارٹون دوبارہ شائع کیا۔
یہ بھی پڑھیں : امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلاف، اسرائیلی چینل 13 کا اعتراف
چارلی ایبڈو نے اپنے متنازعہ کارٹونوں کے ساتھ اس وقت شائع کیے گئے ایک توہین آمیز اداریے میں لکھا کہ ’’تاریخ اور تاریخ سے تعلق رکھنے والی تصاویر کو دوبارہ لکھا یا مٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘
اسلامی ممالک میں بڑھتے ہوئے فرانس مخالف جذبات پر مسلمانوں سے معافی مانگنے کے بجائے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ٹویٹر پر عربی اور انگریزی میں توہین کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار کے بہانے کچھ بھی فرانس کی پسپائی کا باعث نہیں بنے گا۔
چارلی کے توہین آمیز خاکے اور عکاسی کافی تنازعہ کا شکار رہی ہیں۔ آج جو کارٹون میگزین نے دوبارہ شائع کیے ہیں وہ پہلی بار 2006 میں ڈنمارک کے ایک اخبار نے شائع کیے تھے۔ اس اقدام کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تھا
صدر پوٹن نے یہ بھی کہا کہ روس ایک کثیر النسلی اور کثیر الاعتقادی ریاست ہے، اس لیے ہمارے ملک میں ایک دوسرے کی روایات کا احترام کیا جاتا ہے، تاہم کچھ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔