سعودی عرب

25 سال سےبے گناہ آل سعود کی جیل میں موجود شیعہ نوجوان مصطفی معلم

شیعیت نیوز: سعودی عرب کے ایک نوجوان مصطفی معلم پراس وقت ایک جرم کا الزام عائد کیا گیا ہےجب وہ جیل میں تھا اور اسے اس جرم کے لیے عمر قید کی سزا سنائی گئی جو اس نے کیا ہی نہیں نیز اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

مرأۃ الجزیرہ ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق مصطی معلم قطیف کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان سعودی شیعہ نوجوان اپریل 1996 سے جیل میں ہے اور ان دنوں بہت کم لوگ اسے جانتے ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ اس کی گرفتاری کی وجہ کیا تھی اور کس جرم میں وہ 25 سے زائد سال سے جیل میں ہے۔

ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کی گرفتاری کے وقت افسران نے اسے یا اس کے خاندان کو جج کے فیصلے کا کوئی ثبوت نہیں دکھایا، وہ مشرقی سعودی عرب کے صوبے قطیف کے گاؤں الجارودیہ میں پرتشدد انداز میں داخل ہوئے اور اہلخانہ کو زدوکوب کرتے ہوئے مصطفی معلم کو اپنے ساتھ لے گئے۔

اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے تشدد اور مار پیٹ کے تحت اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا کہ وہ سعودی عرب میں خبر ٹاورز پر بمباری میں ملوث تھا جس میں 19 امریکی فوجی ہلاک اور 400 کے قریب زخمی ہوئے تھے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ دھماکے قطیف کے اس نوجوان کو گرفتار کیے جانے کے80 دن بعد ہوئےاور وہ ان دھماکوں کے وقت بنیادی طور پر جیل میں تھا! جبکہ 2001 میں اس وقت کے امریکی وزیر انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ مصطفی معلم بم دھماکے کے مرتکب افراد میں سے ایک تھا۔

یہ بھی پڑھیں : روضوں کی مسماری اور میوزیم کی تعمیر، آل سعود کے کارنامے

سعودی حکام نے بعد میں امریکیوں کے دل جیتنے کے لیے اپنے سابقہ دعوے پر اصرار کیا اور اس حقیقت کے باوجود کہ یہ نوجوان دھماکے کے وقت جیل میں تھا، سعودی عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی، ایسی عدالت جس میں نہ کسی وکیل کی خبر تھی نہ ملزم کو دفاع کا موقع کا موقع دیا گیاجبکہ مصطفی معلم اور ان کے ساتھی ان دنوں بھولے بھالے لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ جس لمحے سے انہیں حراست میں لیا گیا، انہیں اور ان کے اہل خانہ کو وکیل حاصل کرنے کا کوئی موقع یا اجازت نہیں دی گئی،تاہم عجیب بات یہ ہے کہ مصطفی معلم مقدمے کے دن اس کا تفتیشی افسر اس کے وکیل کے طور پر پیش ہوا، یہ ایک ایسی عدالت تھی جس کے ججوں میں بہت سے وہابی شیخ تھے جو شیعوں کے لیے شدید تعصب رکھتے تھے،انھوں نے فیصلے قانون کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی رائے اور اس صورتحال کے مطابق جاری کیے گئے جو وہ خود سمجھتے تھے۔

یادرہے کہ اس کے اور اس کے باقی دوستوں کے خلاف فیصلے ابھی تک انہیں اور ان کے اہل خانہ کو تحریری طور پر نہیں بتائے گئے ہیں،ویب سائٹ نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ معلم اور ان کے دوستوں کو الدمام جیل میں حراست کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان میں سے کچھ کو ان کی شادی کی سالگرہ کے موقع پر گرفتار کیا گیا تھا، جیل کے اہلکاروں کے ہاتھ میں جو چیز آئی اس سے انھوں نے انھیں مارا پیٹا جیسے ہنٹر، چمڑے کے کوڑے اور تار،انہیں بجلی کی کرسیوں پر بھی بٹھایا اور زوردار وولٹیج اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ بے ہوش ہوجاتے تھےجبکہ تشدد کے دوران وہاں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا تھا اور حراست میں لیے گئے افراد کو دنوں اور ہفتوں تک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button