اہم ترین خبریںمقالہ جات

کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدےـ۔۔۔پاکستان کس رخ پر جارہا ہے؟؟؟

یہی بات ہم کہتے رہے ہیں کہ ہم نے جو گڈ اور بیڈ طالبان بنائے ہوئے تھے، اس بات میں کوئی حقیقت نہیں تھی، یہ سب ایک ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لیٹر پیڈ پر ایک جانب ان کے پاکستان کے امیر کی تصویر ہوتی ہے اور دوسری جانب افغان طالبان کے امیر کی تصویر ہوتی ہے۔

شیعیت نیوز: عمران خان کے متعلق جو نعرہ لگایا جاتا تھا کہ ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔ یہ نعرہ اس لئے لگایا جاتا تھا کہ عوام کی نظر میں خان صاحب کی شخصیت کا وہ تصور تھا کہ جو کرکٹ کھیلتے ہوئے انہوں نے دیکھا تھا، لیکن خان صاحب جب سے وزیراعظم بنے ہیں، جو کچھ بھی انہوں نے الیکشن سے پہلے کہا تھا، سب کچھ اس کے برعکس کر رہے ہیں اور جہاں تک ڈٹ جانے کی بات ہے تو اس حوالے سے بھی گذشتہ تین سال سے چاہے میاں نواز شریف کے باہر جانے کی بات ہو یا آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ ہو یا پھر ڈی جی آئی ایس آئی کا مسئلہ ہو یا پھر حال ہی میں تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ سے نمٹنے کیلئے ان کیساتھ مذاکرات کا جو نتیجہ نکلا، اس کی بات ہو تو ان سب معاملات میں ڈٹ جانے کی کوئی ایک جھلک تک دکھائی نہیں دیتی۔

اسی تناظر میں جو سب سے خطرناک معاملہ ہے، وہ گذشتہ کچھ عرصہ سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا ہے۔ ہم جیسے احمق تو انہیں شروع دن سے ملک دشمن اور اسلام دشمن کہہ رہے تھے، لیکن ریاست کو بہت کچھ گنوانے کے بعد بالآخر 2014ء میں خیال آیا کہ یہ تو انڈیا کے ایجنٹ ہیں اور را کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ جو کچھ بھی ہے، لیکن ٹی ٹی پی کوئی سیاسی جماعت نہیں، بلکہ ایک عسکری تنظیم ہے اور پھر پاکستان میں دہشتگردی میں صرف ٹی ٹی پی شامل نہیں بلکہ دیگر کئی دہشت گرد تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات میں جو سب سے اہم بات ہے اور جس بات کا ہم ایک عرصہ سے رونا رو رہے ہیں، لیکن اپنے اپنے مفادات کے سبب کوئی توجہ نہیں دیتا، لیکن اب ٹی ٹی پی کیساتھ پہلی مرتبہ مذاکرات پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں ہو رہے ہیں۔

یہی بات ہم کہتے رہے ہیں کہ ہم نے جو گڈ اور بیڈ طالبان بنائے ہوئے تھے، اس بات میں کوئی حقیقت نہیں تھی، یہ سب ایک ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لیٹر پیڈ پر ایک جانب ان کے پاکستان کے امیر کی تصویر ہوتی ہے اور دوسری جانب افغان طالبان کے امیر کی تصویر ہوتی ہے۔ درحقیقت جو افغان طالبان کا امیر ہوتا ہے، وہی ٹی ٹی پی کا بھی امیر ہوتا ہے۔ یہاں مسئلہ صرف مذاکرات کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم افغان طالبان کو اچھے طالبان کہتے ہیں تو پھر ان اچھے طالبان نے پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کی مذمت کیوں نہیں کی۔ پاکستان میں دہشتگردی نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں، لیکن ہم احمق ہیں یا پھر ہماری افغان پالیسی میں کوئی مسئلہ ہے کہ گذشتہ چالیس سال سے جن پر ہم صدقے واری جا رہے ہیں۔ جن کی خاطر ہم نے پوری دنیا سے دشمنی مول لے رکھی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں دہشتگردی کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ ہم جنھیں اپنا اثاثہ کہتے رہے، ہمارے وہ اثاثے ہمیشہ ہمارے کنٹرول سے باہر کیوں رہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی تاجر رہنماؤں نے توانائی بحران سے نجات کیلئے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کا مطالبہ کردیا

گذشتہ چالیس سال کی تباہ کن پالیسیوں کی وجہ سے ملک فرقہ پرستی کی آگ میں جلتا رہا اور یہ آگ ابھی بجھی نہیں بلکہ یہ تو آگ لگانے والوں کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کب چنگاری کو شعلہ اور شعلے کو بھڑکتا الاؤ بنا دیتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کیساتھ یہ مذاکرات کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہو رہے بلکہ اس سے پہلے ان سے سات معاہدے ہوچکے ہیں۔ پاکستانی حکام نے مختلف اوقات میں نیک محمد، بیت اللہ محسود، حافظ گل بہادر، صوفی محمد، مُلا فضل اللہ، فقیر محمد اور منگل باغ کیساتھ معاہدے کئے۔ کئی بار بات چیت بھی ہوئی، لیکن بات چیت ہو یا معاہدے، ماضی میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہوسکا، بلکہ مذاکرات سے ٹی ٹی پی نے ہمیشہ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے وقت حاصل کیا اور پاکستان میں امن اسی وقت ہوا، جب 2014ء میں ان کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع ہوا۔

اب جو صورتحال ہے، اس میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں دہشتگردوں کو شکست دے دی ہے تو پھر ان کیساتھ مذاکرات کرنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن اگر مذاکرات کی ضرورت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی کئی سوال جنم لیتے ہیں کہ کیا ان مذاکرات کے بعد اگر ٹی ٹی پی سے کوئی معاہدہ ہو بھی گیا تو کیا وہ کامیاب بھی ہوگا؟ یا گذشتہ معاہدوں کی طرح چند ماہ بعد ناکامی پر ختم ہوگا۔ دوسرا سوال حکومت کی اہلیت کا ہے، اب سے پہلے جو معاہدے ہوئے، وہ فوج نے کئے لیکن موجودہ حکومت جو درود والی تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ سے ڈر کر اس کی تمام شرائط کو تسلیم کر لیتی ہے تو بارود والوں کیساتھ ان کی اہلیت کیا چاند چڑھاتی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن موجودہ حکومت کیساتھ طالبان کے مذاکرات کا مطلب ہے کہ دونوں جانب ایک ہی سوچ کے حامی افراد ہیں، اس لئے کہ خان صاحب کو بھی تو لوگ طالبان خان کہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ بلا وجہ تو نہیں کہتے ہوں گے۔

اس لئے مشتری ہوشیار باش کہ حزب اختلاف ٹی ایل پی کیساتھ ہونیوالے معاہدے کو اور اب ٹی ٹی پی کیساتھ ہونیوالی بات چیت کو پارلیمنٹ کے علم میں لانا چاہتی ہے تو غلط نہیں بلکہ انتہائی مناسب بات کر رہی ہے اور پھر اس میں چھپانے والی کون سی بات ہے، عوام کو بھی تو پتہ چلے کہ حکومت نے کن بنیادوں پر اور کس قیمت پر انتہاء پسند کالعدم تنظیموں سے بات کی ہے اور کن شرائط پر معاہدے ہو رہے ہیں۔ سب سے اہم بات کہ وہ دن گئے، جب خلیل میاں اکیلے ہی فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب ایک سے زیادہ خلیل میاں میدان میں آچکے ہیں اور ان کے پاس اڑانے کیلئے فاختہ ہی نہیں بلکہ رنگ برنگے اور پرندے بھی ہیں۔ افغانستان میں کوئی اور نہیں بلکہ خود طالبان برسر اقتدار ہیں اور کسی ضابطے آئین اور قانون کے بغیر پوری ریاستی طاقت بھی ان کے پاس ہے، لیکن داعش کی جانب سے جو دہشتگردانہ حملے ہو رہے ہیں، افغان طالبان انھیں روکنے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔

یہ بھی پڑھیں: قرآن کریم کی برکت کے نتیجے میں علامہ اقبال مغرب سے متاثر نہیں ہوئے انکے کافی اشعارمغربی کلچرکےخلاف ہیں، علامہ ہاشم موسوی

پاکستان میں تو بہت سی ایسی تنظیمیں دہشتگردی میں ملوث رہی ہیں تو ٹی ٹی پی کیساتھ اگر معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو باقی کا کیا بنے گا۔ خان صاحب کو اپنے سیاسی بچپن سے طالبان کا دفتر پشاور میں کھولنے کا شوق تھا، بیشک دفتر کھول لیں، لیکن اگر دہشتگردی پھر بھی نہ رکی تو کیا کریں گے اور اس خالد خراسانی جیسے بندوں کا کیا کریں گے کہ جنھیں پاکستانی شہریوں کے خون کی خوشبو بڑی اچھی لگتی تھی۔ آخر میں جو لوگ ان سے مذاکرات کر رہے ہیں، ان سے ہاتھ باندھ کر ایک انتہائی مودبانہ گذارش ہے کہ ان سب کلمہ گو مسلمان مجاہدین سے ایک سوال تو ضرور پوچھیں اور اگر کوئی جواب مل جائے تو اسے پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کو اس جواب سے مطلع فرما کر شکریہ کا موقع دیں کہ بھائی پوری دنیا میں آپ کو نشانہ بنانے کیلئے صرف مسلمان ہی ملے ہیں۔ یہ پڑوس میں ہندوستان ہے اور مودی جیسا اسلام دشمن وزیراعظم ہے تو کبھی بھول کر ہی وہاں کا بھی ایک چکر لگا لو، تاکہ نامہ اعمال میں مسلمانوں کے علاوہ کسی کافر کا خون بھی شامل ہو جائے۔

تحریر: ذوالفقار علی شاہ

متعلقہ مضامین

Back to top button