کسی سے بلیک میل نہ ہونے کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان آخر کارکالعدم ٹی ایل پی کے ہاتھوں بلیک میل ہوہی گئے
سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ چند وزراء نے سیاسی اور قانونی وجوہات کی بناء پر اس سمری کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود سمری کو منظور کرانے کیلئے وزراء کی مطلوبہ تعداد پوری تھی۔

شیعیت نیوز: کسی سے بلیک میل نہ ہونے ہونے کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان آخر کار ایک مسلح جتھے سے بلیک میل ہوہی گئے۔ وفاقی وزارت داخلہ نےکالعدم تحریک لبیک سے پابندی اٹھانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، اس سے پہلے حکومت پنجاب کی سمری پر وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی پر سے پابندی ہٹانے کی منظوری دی تھی۔
وفاقی کابینہ کے چند ارکان کے تحفظات کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے ہٹانے کی وزارت د اخلہ کی سمری منظور کی تھی۔
وزیر داخلہ نے بتایا تھا کہ سمری منظور کر لی ہے، یہ سمری وفاقی کابینہ کے 27؍ وزراء کو سرکولیشن کے ذریعے منظوری کیلئے بھیجی گئی تھی جن میں سے سمری کی منظوری کیلئے 14؍ وزراء کی حمایت درکار تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کمزور ریاستی پالیسی ،کالعدم ٹی ایل پی کے بعد ملک دشمن کالعدم سپاہ صحابہ بھی پابندی ہٹوانے کیلئے میدان میں آگئی
سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ چند وزراء نے سیاسی اور قانونی وجوہات کی بناء پر اس سمری کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود سمری کو منظور کرانے کیلئے وزراء کی مطلوبہ تعداد پوری تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان ہونے والا معاہدہ وزراء (ماسوائے شاہ محمود قریشی اور علی محمد) کو بھی نہیں دکھایا گیا جس سے کابینہ ارکان کی فیصلہ سازی کے انداز پر سوال اٹھتے ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سابق کابینہ سیکریٹری کا کہنا تھا کہ معاہدے کی معلومات نہ ہونے سے کابینہ کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کابینہ رکن کا استحقاق ہے کہ وہ اس ایشو پر سوال اٹھائے یا نہیں۔ وزارت داخلہ نے ٹی ایل پی کی یقین دہانی کی نشاندہی کی تھی کہ وہ پرتشدد مظاہرے نہیں کرے گی اور اسی وجہ سے پارٹی کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے خارج کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: تبدیلی سرکار نےعوام کی چیخیں نکال دی ہیں، اس حکومت نے عوام کو بھوک افلاس کے تحفہ دیئے،علامہ اقتدارنقوی
کچھ وزیروں نے اس سمری پر دستخط سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور وزیراعظم کو بتایا کہ اس معاملے میں قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں شامل ہیں، تجویز دی گئی کہ فیصلے سے قبل دونوں پہلوئوں پر مفصل بحث کی جائے۔