ایران

یورپی ممالک کو خود کو امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے دور رکھنا چاہیے، صدر ایران

شیعیت نیوز: ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے یورپی ملکوں سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی پیروی ترک کرکے آزادانہ رویہ اختیار کریں۔

صدر ایران ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے تہران میں بیلجیئم کے نئے سفیر سے سفارتی دستاویزات وصول کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات کے ماضی کا ذکر کیا اور کہا کہ ایران، بلجیئم اور یورپ کے ساتھ اقتصادی و تجارتی شعبوں میں تعاون کی توسیع کا خواہاں ہے تاہم اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ اغیار ان تعلقات و تعاون پر اثرانداز ہوں-

انہوں نے کہا یورپی ممالک خود آزادی عمل کا مظاہرہ کریں اور اس طرح سے عمل نہ کریں کہ امریکہ یورپ کو اپنا زیر اثر علاقہ سمجھنے لگے۔

سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ امریکہ، دنیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور تمام ممالک پر اپنے ظالمانہ عزائم مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاہم دیگر ممالک کو اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہئے کہ امریکی، دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنی من مانی اور اپنی مرضی چلائیں۔

اس موقع پر ایران میں بلجیئم کے نئے سفیر جیانمار کوریٹزو نے بھی دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات کے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ باہمی اقتصادی تعلقات کے فروغ سے تہران اور برسلز کے درمیان تعلقات کو ماضی سے کہیں زیادہ تقویت حاصل ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں : ایرانی سپریم لیڈر نے بعض قیدیوں کی سزاؤں میں کمی اور معافی کی منظوری دی

دوسری جانب ایرانی صدر نے کہا ہے کہ یورپی یونین اسٹریٹیجک آزادی کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہو جائے گی اور خود کو امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے دوری اختیار کر لے گی کیونکہ امریکی یکطرفہ طرز عمل دنیا کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

رئیسی نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آپ کے مشن کے دور میں ایران اور فن لینڈ کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں مزید ترقی ہوگی۔

انہوں نے یورپ کو ایران کے حوالے سے اپنے وعدوں کی پاسداری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات کے قیام کی 90ویں سالگرہ کے موقع پر ایران اور فن لینڈ کے درمیان تعلقات کے فروغ کی امید ظاہر کی۔

فن لینڈ کے نئے سفیر نے ایران کو خطے کے اہم ممالک میں شمار کیا اور افغانستان میں پیشرفت سمیت علاقائی مسائل سے نمٹنے کے لیے اس کے ساتھ تعاون کا خیرمقدم کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے ملک کی ایران میں اچھی سرمایہ کاری ہے اور وہ اب تہران کے ساتھ دوطرفہ تعاون چاہتا ہے جو پہلے تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button