مقبوضہ فلسطین

غرب اردن ایک بڑے میدان جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے، حسام بدران

شیعیت نیوز: اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے رکن حسام بدران نے خبردار کیا ہے کہ غرب اردن کے علاقوں میں قابض صیہونی ریاست کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت کے بعد ظاہر ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں غرب اردن مزاحمت کا نیا میدان جنگ بند سکتا ہے۔

حماس کے سیاسی شعبے کےرکن حسام بدران نے ایک بیان میں کہا کہ غرب اردن کے عوام قابض دشمن کے خلاف جامع مزاحمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اپنے ٹی وی انٹرویو میں حسام بدران نے کہا کہ غرب اردن میں ہمارے مجاہدین، مزاحمت کار اور ہیروز موجود ہیں جو قابض دشمن کے خلاف بھرپور مزاحمت کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ القدس اور جنین میں حالیہ ایام میں ہونے والے واقعات اور اسرائیلی جیل سے چھ فلسطینیوں کا سرنگ کے ذریعے فرار دشمن کے لیے واضح پیغام ہے کہ فلسطینی قوم تمام تر مظالم کے باوجود ہرمحاذ پرمزاحمت کےلیے تیار ہے۔

حسام بدران کا کہنا تھا کہ اسرائیل پورے ارض فلسطین بالخصوص القدس کو یہودیانے کے لیے دن رات سرگرم عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ القدس اور غرب اردن میں روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کی طرف سے مزاحمت کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ اسرائیلی دشمن کو خوف ہے کہ غرب اردن ایک بڑے میدان جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : عراقی عدلیہ کے اسرائیل کی حمایت میں کانفرنس منعقد کرنے والوں کے وارنٹ جاری

دوسری جانب مزاحمتی تحریک حماس کے ایک سینئر رہنما نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسرائیل سے اگلی جنگ مغربی کنارے پر ہوگی، اس علاقے میں سیکورٹی ہماہنگی سے مقابلے کے لئے قومی مفاہمت کا مطالبہ کیا۔

تحریک حماس کے رہنما باسم نعیم کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے کے شہروں اور دہی علاقوں کو انقلابی بنانے کے لئے تمام قومی اور عوامی کوششیں بروئے کار لائی جانی چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عظیم ہدف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے ہم کو صیہونی حکومت کے ساتھ سیکورٹی ہماہنگی کے نظریہ سے مقابلے کے لئے ایک قومی مؤقف پر متفق ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اس مؤقف کے حامیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ یا وہ خود اپنی قوم کے ساتھ قومی منصوبے میں شامل ہو جائیں یا کنارے ہٹ جائیں تاکہ قوم غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں مزاحمت کے لئے اپنا طبیعی کردار ادا کرے۔

الخلیج الجدید ویب سائٹ کے مطابق باسم نعیم نے تاکید کی کہ صیہونی حکومت طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں ٹکنے والی نہیں اور بھاری قیمت ادا کرنے کی بھی اس میں توانائی نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button