سانحہ عاشورہ غواڑی شیخ حسن جعفری کی رہبری میں آغا علی رضوی کا مجاہدانہ ومصالحانہ کردار
آغا علی رضوی اس اہم ترین ایشو کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں اور آپکی کوششیں اہالیان بلتستان بالخصوص اور ملک عزیز کے باسیوں کیلئے کس جہت میں ثمر آور ہوسکتا ہے یہ تیرہ محرم الحرام کو جاری ویڈیو بیان سے بخوبی واضح ہیں۔

شیعیت نیوز: سیاسی و مذہبی تنظیم مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سرپرست آغا علی رضوی بلتستان کی توانا ترین آوازوں اور شخصیات میں سے ہیں۔ آپ نے ہر مناسب اور ضرورت کے موقع پر خطے کی محرومیوں اور محکومیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ کوششیں کیں۔ گزشتہ دس بارہ سالوں سے آپ نے ہر علاقائی و عوامی معاملے پر آواز اٹھائی اور ہر مرتبہ عوام کی بہترین ترجمانی کی۔ آپکے سیاسی مخالفین بھی آپ کی بے باک اور بے لوث شخصیت کا معترف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے اندر انکے پائے کی عوامی لیڈرشپ اور قائدانہ صلاحیت کسی اور میں فی زمانہ نہیں۔
دیگر معاملات کے علاؤہ آغا علی رضوی خطے میں بین المسالک ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق اور رواداری کے فروغ کے حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ چاہے چلاس اور بابوسر کے اندر انسان سوز مظالم کے بعد مختلف اضلاع میں بسنے والے مختلف مسالک کے افراد اور زعماء کیساتھ ہم آہنگی اور آپس میں پیار و محبت کا فروغ ہو ، عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے امن و اتحاد اور رواداری کے پیغامات جس میں بلا امتیاز مسلک و علاقہ تمام طبقہ ہائے فکر کے افراد اور علما و زعماء شریک ہیں، یا دینی تقریبات اور مناسبات کے موقع پر آپ کے پرخلوص پیغامات، آغا علی رضوی ایک انجمن کی صورت میں ہمیشہ علاقے میں شبانہ روز متحرک رہے جس کا واضح ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ آج تک آپ پر کبھی مسلکی و علاقائی کسی معاملے پر معمولی سا بھی اعتراض نہیں اٹھ سکا۔ حالیہ دنوں عاشورہ کے دن ضلع گنگچھے میں چند شرپسندوں کیطرف سے علاقے میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ پر امن جلوس پر پتھراؤ کرکے درجنوں شیعہ خواتین و حضرات کو زخمی کردیے گئے، مسجد اور علم مبارک کی بے حرمتی کی گئی ، جلوس کو روکنے کیلئے شرپسند افراد نے حملہ کیا۔ اس دلخراش واقعے کے بعد بہت ممکن تھا کہ دوسری جانب سے بھی اسی شدت کیساتھ رد عمل دیا جاتا، علاقے کے لوگ آپس میں دست و گریبان ہوجاتے، جس سے شیطانی قوتوں کی لگائی آگ پورے خطے میں پھیل سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عشرہ محرم الحرام کے دوران ملک بھرمیں عزاداری امام حسینؑ پر حملوں اور رکاوٹوں کی جامع رپورٹ منظرعام پر آگئی
مگر الحمدللہ آغا علی رضوی جیسی بابصیرت شخصیت نے اولین فرصت میں اس نازک مرحلے کو بھانپ لیا اور آپ نے تمام تر ممکنات سے صرف نظر کرتے ہوئے امن و امان کے قیام ، مظلوم کی حمایت اور ظالم سے اظہار برات کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ میدان عمل میں اسکا برملا اظہار بھی کردیا جس کے سبب الحمد للہ علاقہ گلگت بلتستان مزید کسی انتشار اور بد امنی کی جانب بڑھنے سے بچ گیا۔ بعض کم فہم اعتراض کرتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں کہ آغا علی رضوی نے سانحے کے بعد غواڑی پر لشکر کشی کی۔ ایسے لوگ بتائیں کہ کیا آغا علی رضوی نے وہاں جاکر کسی کو کچھ کہا ؟ کسی پر مارا ؟ انکا کوئی ساتھی ایسی کسی حرکت کا مرتکب ہوا ؟ یقینا نہیں کیونکہ آغا علی رضوی کی سرشت میں ہی بد نیتی اور منافقت شامل نہیں۔ نتیجتا آغا صاحب نے غواڑی میں حالات دیکھنے کیلئے آئے ہوئے لوگوں کے جذبات کو قابو میں رکھا اور کئی گھنٹے تک پر امن اور منظم انداز میں ماتم داری و نوحہ خوانی کے بعد لوگوں کو گھروں کو واپس جانے پر آمادہ کیا۔ مقامی انتظامیہ اور اعلیٰ حکومتی و انتظامی شخصیات کیساتھ آپ اور دوسرے علماءِ کرام کے رابطوں اور عوامی مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کے طفیل غواڑی میں ایک پتہ بھی نہیں ہلا۔ شرپسندوں کو قانون کے مطابق سزا دینے کی زمہداری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زمہداری ہے ، آغا علی رضوی نے ان اداروں کے ذمہداروں کو باور کرایا اور لوگوں کو منتشر کردیئے۔ جس کے ثبوت و گواہی موقع پر موجود تمام انتظامی اور حکومتی اہلکار دیتے ہیں اور خود آغا صاحب کے خطاب اور بیانات سے واضح ہیں۔ انہوں نے بلتستان کے دوسرے جید علمائے کرام سے مشاورت کے بعد انتظامیہ کو مہلت دی اور علاقے کو فساد اور انتشار کا شکار ہونے سے بچایا۔
معاملہ یہیں تک نہیں رکتا ، جب تیرہ محرم الحرام کی رات ڈیڈ لائن قریب تھا ، انتظامیہ کیطرف سے مطالبات پر عملدار آمد نہیں ہوئی تھی تاکہ صوبائی حکومت کیجانب سے مقرر کردہ امن کمیٹی کے اراکین مخلتف مسالک کے علماء و عمائدین اور انتظامی افسران کیساتھ ملاقاتیں کرکے فریقین کو صلح تک پہنچانے کی تگ و دو کرتے رہے۔ آغا علی رضوی کے نامزد کردہ نمایندہ ، صوبائی وزیر کاظم میثم دیگر وزراء کے ہمراہ مسلسل اس ایشو کو انتشار کا شکار ہونے سے روکنے میں پیش پیش رہے۔ ساتھ ہی ساتھ جزا و سزا اور قانون کی رٹ قائم کرنے یعنی شرانگءزی کرنے والوں کیخلاف ایف آئی آر کے اندراج ، ملزمان اور انتظامی افسران اور فورسز کی کوتاہیوں کی بابت اقدامات میں کاظم میثم ضلع گنگچھے کے مزکورہ علاقہ غواڑی میں مقیم اور فرنٹ لاین پر رہے۔
یہ بھی پڑھیں: غواڑی میں جلوس عاشورا پر حملہ، دوپولیس افسران معطل، ڈی سی گانچھے کی بھی جلد چھٹی کا امکان
آغا علی رضوی اس اہم ترین ایشو کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں اور آپکی کوششیں اہالیان بلتستان بالخصوص اور ملک عزیز کے باسیوں کیلئے کس جہت میں ثمر آور ہوسکتا ہے یہ تیرہ محرم الحرام کو جاری ویڈیو بیان سے بخوبی واضح ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر آغا صاحب کا ویڈیو بیان موجود ہے جسے سن کر کوئی بھی عقلمند بخوبی یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ آغا علی رضوی علاقے میں مسلکی ہم آہنگی اور امن و امان کے قیام و بقا کیلئے سب سے زیادہ کوشاں اور فکر مند رہنے والی شخصیت ہیں۔ آپ نے ویڈیو پیغام میں واضح کیا کہ کسی بھی شرانگیزی کی اجازت ملکی قوانین نہیں دیتی۔ ملک کے گوش و کنار میں مذہبی تقریبات اور عبادات کی آزادی ہر شہری کو آزادی ہے۔ خواتین پر حملہ مقدسات کی بے حرمتی اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوئی گنجائش ملکی قوانین نہیں دیتی۔ آپ نے یہ بھی ببانگ دہل فرمایا کہ اگر غواڑی کے اہل تشیع مسلمانوں نے کوئی قابل مواخذہ جرم کا ارتکاب کیا ہے تو اسے بھی قانون کیمطابق ٹریٹ کیا جانا لازمی ہے۔ ساتھ ہی آپ نے فرمایا کہ علاقے کی بھائی چارگی اور اتحاد و اتفاق کے فروغ کیلئے دیگر تمام مسالک کے علما کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ آپ نے بیشتر علما کا نام لیکر شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس نازک ایشو پر عوامی انتشار کو روکنے میں کردار ادا کرنے کی آفرز دیں اور ہر ممکن کوشش کیں۔
بعد ازاں امن کمیٹی کی کوششوں سے جب غواڑی کے علمائے اہلحدیث اپنے چیدہ چیدہ زعما کے ہمراہ سکردو میں مرکز امامیہ آئے جہاں پر قائد جعفریہ بلتستان علامہ شیخ حسن جعفری اور دیگر بزرگ علمائے کرام کیساتھ گفت و شنید ہوئی۔ اس بابت بھی مسلک اہلحدیث کے علماء و زعماء کی آمد سے قبل اجلاس میں آغا علی رضوی دیگر علماء کے ہمراہ شریک رہے اور اپنے موقف سے علمائے امامیہ خصوصا قائد جعفریہ بلتستان شیخ محمد حسن جعفری کو آگاہ کیا۔ آغا علی رضوی نے اس موقع پر کہا کہ افسوسناک سانحے کے بعد آپ غواڑی میں حالات کا جائزہ لینے اور زخمی عزاداروں کی عیادت کیلئے گئے، وہاں پر مشتعل عوام کو کنٹرول کیا، کئی گھنٹوں تک نوحہ خوانی اور ماتم داری میں نوجوانوں کیساتھ خود شریک رہے اور مرکزی علمائے امامیہ اور ضلع گنگچھے کی قیادت کے حکم پر صوبائی انتظامی ذمہداران کی یقین دہانی کے بعد عوام کیساتھ غواڑی سے واپسی کی راہ لی، چونکہ پہلے بھی مرکزی علمائے کرام کی مشاورت سے لائحہ عمل طے ہوا اب ڈیڈ لاین کے بعد بھی جو فیصلہ بزرگ علمائے کرام خصوصا شیخ حسن جعفری صاحب، ضلع گنگچھے کی قیادت (شیخ سجاد مفتی و دیگر) اور علماء و سرکردگان غواڑی فیصلہ کرے وہ انکا فیصلہ قرار پائیگا۔
بعد ازاں اہل حدیث علمائے کرام کی نمائندگی کرتے ہوئے دارالعلوم کے مفتی نے واقعے پر معذرت خواہی کی ، آئندہ ایسا نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کی جس پر بزرگ علمائے امامیہ نے امن کمیٹی ، حکومتی نمائندوں خصوصا صوبائی وزیر زراعت کاظم میثم کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے معاملے کو سنجیدگی کیساتھ سلجھانے کیلئے دن رات ایک کئے۔ یوں بغیر کسی مزید تفرقے اور انتشار کے غواڑی کا یہ اہم اور نازک مرحلہ طے ہوسکا۔