شام میں داعشی دلہن سے کیا کروایا گیا ؟ حرف بہ حرف منظرِ عام پر آگیا
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے داعش کے رکن یاگو ریڈک کی برطانوی بیوی اور "داعش کی دلہن” کی عرفیت سے مشہور شمیمہ بیگم نے دہشت گرد تنظیم میں اپنی شمولیت کے حوالے سے مزید انکشافات کیے ہیں۔ یہ انکشافات ایک دستاویزی فلم میں سامنے آئے جس کا نام ‘واپسی : داعش کے بعد زندگی’ ہے۔
آج اتوار کے روز غیر ملکی اخبارات میں شائع رپورٹوں کے مطابق شمیمہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ 15 برس کی عمر میں داعش تنظیم میں شامل ہونے کے واسطے برطانیہ سے فرار ہوئی تھی اس لیے کہ وہ اپنی دو سہیلیوں کے جانے کے بعد ان کے پیچھے تنہا نہیں رہنا چاہتی تھی۔
شمیمہ کے مطابق وہ اپنی دو ساتھیوں کیڈیزا سلطانہ اور امیرہ عباس کے ساتھ 2015ء میں مشرقی لندن سے کوچ کر گئی تھی ،،، شمیمہ کے بقول وہ اس وقت لڑکپن کی عمر میں اور بہت سادہ لوح تھی۔ ساتھ ہی شام میں لوگوں کی مدد کی خواہاں تھی جس کو جنگ نے تباہ کر دیا تھا۔
شمیمہ نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر داعش تنظیم کے حامیوں اور اس کی دوستوں نے اسے بھرتی کیا۔ شمیمہ نے 90 منٹ دورانیے کی دستاویزی فلم میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے علم تھا کہ یہ ایک بڑا فیصلہ ہے مگر میں نے محسوس کیا کہ ایسا جلد از جلد کرنا چاہیے۔ شمیمہ نے الزام عائد کیا کہ برطانوی حکومت نے اس کی شہریت ختم کرنے کے لیے من گھڑت کہانیاں پیش کیں۔ اس نے حکومت پر زور دیا کہ اسے وطن واپس آنے کی اجازت دی جائے۔ شمیمہ نے باور کرایا کہ وہ داعش تنظیم کے جرائم میں ملوث نہیں۔
شمیمہ گفتگو کے دوران میں شام میں اپنے تینوں بچوں کو کھو دینے کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑی۔ شمیمہ کا کہنا تھا کہ اس نے غم کے مارے خود کو جان سے مار لینے کا ارادہ کر لیا تھا۔
یاد رہے کہ شمیمہ بیگم اس وقت شمالی شام میں الروج کے پناہ گزین کیمپ میں زیر حراست ہے۔ برطانوی حکومت پہلے ہی اسے برطانوی شہریت سے محروم کر چکی ہے۔ رواں سال فروری میں برطانیہ میں عدالت عظمی نے یہ فیصلہ سنایا کہ شمیمہ بیگم اپنی برطانوی شہریت ختم کر دیے جانے کے خلاف اپیل کی پیروی کے واسطے برطانیہ واپس نہیں آ سکتی۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق شام میں ترکی اور ایران کی سرحد کے نزدیک واقع الروج کیمپ میں اس وقت تقریبا 800 خاندان زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کیمپ کی صورت حال 80 میل کی دوری پر واقع الہول کیمپ سے بہت بہتر ہے جہاں 15000 خاندان قیام پذیر ہیں۔