دنیا

ہم جوہری معاہدے کو مضبوط اور طولانی بنانا چاہتے ہیں، انٹونی بلنکن کا دعویٰ

شیعیت نیوز: امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جوہری معاہدے میں مکمل واپسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہے کہا کہ ان کی حکومت نے سن سیٹ کلاز سمیت، ایٹمی معاہدے میں تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ صدر جوبائیڈن ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ کہ ایران بھی جوہری معاہدے پر عملدرآمد کا عہد کرے۔

صیہونی حکومت کے ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ویانا میں جاری مذاکرات کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ایٹمی معاہدے کو بقول ان کے مضبوط اور طولانی بنانا چاہتی ہے جس کا اطلاق سن سیٹ کلاز پر ہو سکتا ہے۔ جوہری معاہدے کی سن سینٹ کلاز کے مطابق، دس سال کے بعد ایران سینیٹری فیوج مشنیوں کی تعداد میں اور پندرہ سال کے بعد ، کم افزودہ یورینیم کے حجم میں بھی اضافہ کر سکتا ہے۔

انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے کو جو کام کرنا چاہیے تھا وہ بقول ان کے اس نے کر دیا تھا اور جوہری معاہدے سے ٹرمپ انتظامیہ کی علیحدگی سے پہلے ایران، ایٹمی بم بنانے کے لیے لازمی مواد کو ایک سال میں تیار کر سکتا تھا لیکن اب (ٹرمپ کے معاہدے سے نکل جانے کے نتیجے میں) وہ انتہائی کم مدت میں ایسا کرنے کے قابل بن چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ایران کا حق ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو توسیع دے، فائل گروسی

دوسری جانب امریکی ویب جرید ایکسیوس نے ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اگرچہ جوہری معاہدے کے بارے میں ایران کے ساتھ سمجھوتے کے حصول میں محض چند ماہ درکار ہیں تاہم اس حوالے سے انہوں نے گیند ایران کے پالے میں پھینکنے کی کوشش کی ہے۔

مذکورہ امریکی عہدیدار نے ویانا مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے ایکسیوس کو بتایا ہے کہ، اہم ترین اختلافات، ایران کی جدید ترین سینٹری فیوج مشینوں کے بارے میں ہیں۔

انہوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ صدر جو بائیڈن چاہتے ہیں کہ ایران کی ایٹم بم تک رسائی کا فاصلہ ایک سال ہونا چاہیے! یعنی امریکیوں کی مراد ایٹم بم بنانے کے لیے لازمی موادی کی تیاری کے وقت کی جانب ہے۔

ایسے حالات میں امریکیوں کی یہ بیان بازی سامنے آئی ہے کہ ایران بارہا، ایٹم بم کی تیاری سے متعلق مغربی ملکوں کے دعووں کو سختی کے ساتھ مسترد کرکے یہ واضح کر چکا ہے کہ اُس کا ایٹمی اسلحے بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ ان ہتھیاروں کو تعلیمات اسلامی کے خلاف سمجھتا ہے اور اگر بالفرض وہ ان ہتھیاروں کو بنانے کا ارادہ کر بھی لیتا تو دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جو اُسے یہ مقصد حاصل کرنے سے روک لیتی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button