اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

گریٹر اسرائیل منصوبہ سے متعلق حقائق

گریٹر اسرائیل منصوبہ سے متعلق حقائق

گریٹر اسرائیل انگریزی زبان کی ایک ایسی اصطلاح ہے جو بین الاقوامی سطح پر مشہور ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل کے عنوان سے کوئی منصوبہ وجود رکھتا ہے یا یہ محض اسرائیل کے مخالفین کا وہم یا سازشی مفروضہ ہے۔

گریٹر اسرائیل کے عنوان سے کوئی منصوبہ وجود رکھتا ہے!؟

لازم ہے کہ گریٹر اسرائیل کو سمجھنے سے پہلے موجودہ اسرائیل کی اصلیت کو سمجھا جائے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس کے قیام سے متعلق پس منظر اور مختلف رخ کو سمجھنا ہوگا۔ ان سب کو تحریری صورت دیں تو طوالت اتنی ہوگی کہ کئی ضخیم کتابوں کی صورت اختیار کرجائے گی۔

اسرائیل کے بانیان اور موجودہ حکومت کا موقف

اسرائیل کے قیام سے متعلق دیگر پہلوؤں کو چھوڑ کر صرف ایک رخ پر توجہ دے کر بھی حقیقت کی تہہ تک پہنچنا آسان ہے۔ یعنی موجودہ اسرائیل سے متعلق اسکے بانیان اور موجودہ حکومت کا موقف۔ انکے رسمی و سرکاری موقف کا جائزہ لیں تب بھی باآسانی موجودہ اسرائیل کی اصلیت کو سمجھاجاسکتا ہے۔

گریٹر اسرائیل منصوبہ سے متعلق حقائق

قصہ مختصر یہ کہ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے اسے بنیادی طور پردو حصوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ ایک موجودہ اسرائیل اور ایک گریٹر اسرائیل۔ جب اسرائیل کی اصل حقیقت سمجھ لیں گے تو اگلے مرحلے یعنی گریٹر اسرائیل کی حقیقت بھی خود بخود سمجھتے چلے جائیں گے۔

اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ

اسرائیل کے قیام کے رسمی اعلان کا وہ متن جو 14مئی 1948ع کو نشر کیا گیا۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اسکا عنوان اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ لکھا ہے۔

گریٹر اسرائیل منصوبہ سے متعلق حقائق

غیر ملکی یہودی بڑوں کا اعلامیہ

اس اعلامیہ کا انگریزی متن امریکی شہر نیویارک میں شایع کیا گیا تو اسے اعلان آزادی کا عنوان دیا گیا۔ اوپر تھیوڈور ہرزل کی تصویر تھی۔ موجودہ اسرائیل کے قیام کی بنیاد غیر ملکی یہودی بڑوں کا 14مئی1948ع کا اعلامیہ ہی ہے۔

ارض اسرائیل سے متعلق تین جھوٹے دعوے

اس اعلامیہ کے متن میں عبرانی لفظ ارض اسرائیل لکھا گیا ہے۔ (گریٹر اسرائیل کے لیے عبرانی اصطلاح ارض اسرائیل ھا شلیما استعمال کی جاتی ہے۔) دوسرا دعویٰ یہ کیا گیا کہ یہ سرزمین یعنی فلسطین، یہودیوں کی جائے پیدائش ہے۔ تیسرا دعویٰ یہ کہ یہاں سے یہودیوں کو جبری طور پر جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے یہ تینوں دعوے جھوٹ پر مبنی، غلط بیانی ہے۔

یہودیوں کی جائے پیدائش

پہلا یہودی کون!؟

یہودیوں کی جائے پیدائش جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پہلا یہودی کون ہے!؟ اس سوال کا جواب ہم مئی2020ع میں اپنی تحریر بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں کے عنوان کے تحت دے چکے ہیں۔

عراق، کنعان اور مصر

گوکہ بحیثیت مسلمان ہم حضرت آدم علیہ السلام تا حضرت خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ تک سبھی انبیائے الٰہی کو محترم مانتے ہیں، لیکن یہودی نسل پرستوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے فی الحال قرآنی نظریہ کی بجائے یہودیوں کے جھوٹے دعوے کے جواب میں یہ نکتہ پیش کرنے پر مجبور ہیں کہ جغرافیائی قومیت کے لحاظ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام میسوپوٹیمیا کے عراقی تھے، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کنعانی تھے۔ انکے بعد چار صدیوں تک یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام تک حضرت اسحاق ؑ والا سلسلہ اولاد ابراہیمی مصری تھا۔

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں 
فلسطین کنعانیوں کی جائے پیدائش

تو فلسطین یا موجودہ اسرائیل کو کسی بھی لحاظ سے یہودیوں کی جائے پیدائش نہیں قرار دیا جاسکتا!۔ ان سے پہلے بھی یہ علاقہ کنعانیوں کی جائے پیدائش تھا۔ اسرائیل کے قیام کے لیے اس علاقے کو یہودیوں کی جائے پیدائش کہنا، یہ دعویٰ بھی تاریخی لحاظ سے غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ امریکی کانگریس کے سابقہ رکن پال فنڈلے نے اسرائیل کے جھوٹے دعووں کو اپنی کتاب دیدہ و دانستہ فریب کاریاں (Deliberate Deceptions) میں بھی بے نقاب کیا ہے۔

عرب بھی اولاد ابراہیمی ہی ہیں

اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہی مرکزی جد تسلیم کرلیا جائے تب بھی عرب بھی اولاد ابراہیمی ہی ہیں، انکا بھی اس سرزمین پر اتنا ہی حق ہے جتنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے دیگر کو۔ اس زاویے سے تو امام خمینی ؒ، امام خامنہ ای سمیت پوری دنیا میں کہیں بھی آباد سید بھی اس پوری سرزمین کو اپنی جائے پیدائش قرار دے سکتے ہیں!۔ تو یہودی کس طرح دیگر اولاد ابراہیمی ؑکے حق کا انکار کرسکتے ہیں!؟
نسل پرست دہشت گردہگانہ، ارگن، زیوی، لہوی

گریٹر اسرائیل منصوبہ سے متعلق حقائق

ہگانہ، ارگن، زیوی، لہوی سمیت مختلف ٹولوں کے یہودی نسل پرست دہشت گردوں نے عرب فلسطینیوں کو کس دلیل کی بنیاد پر قتل کیا اور زندوں کو جبری جلاوطن کیا!؟ اور کیوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے وہ انسان جو عرب فلسطینی ہیں وہ دیگر ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں اب تک زندگی گذارنے پر مجبور ہیں!؟

گریٹر اسرائیل منصوبہ سے متعلق حقائق

اقلیتی یہودی آبادی کے لیے فلسطین پر تسلط

اسرائیل کے قیام کے اعلامیہ میں 37یہودی بڑو ں نے تھیوڈور ہرزل کو روحانی باپ قرار دیا۔ انکا یہ روحانی باپ بھی فلسطین یا موجودہ اسرائیل حتیٰ کہ گریٹر اسرائیل کے کسی علاقے کا یہودی نہیں تھا۔ موجودہ اسرائیل کا بانی ڈیوڈ بن گوریان بھی فلسطینی یہودی نہیں بلکہ غیر ملکی تھا۔ تو دنیا میں کہیں بھی ایسا کوئی فارمولا قابل قبول نہیں ماناجاتا جس فارمولا کے تحت اسرائیل کو مان لیا گیا۔

گوریان سمیت 36غیر ملکی یہودی بانیان

بن گوریان سمیت 37یہودیوں نے مل کرعرب اکثریتی فلسطین پر اقلیتی یہودی آبادی کے لیے اسرائیل نامی ریاست مسلط کی۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان میں سے صرف یہودی فلسطین کا اصلی باشندہ تھا باقی سارے غیر ملکی تھے۔ اور ان غیر ملکی 36 یہودیوں میں بھی محض ایک یہودی یمن سے نقل مکانی کرکے فلسطین آیا تھا۔

فلسطین برطانوی علاقہ نہیں تھا

ان غیر ملکی یہودیوں نے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بیلفر کے اعلامیہ مورخہ 2نومبر 1917ع کو اسرائیل کے قیام کا بنیادی جواز قرار دیا جبکہ فلسطین برطانوی علاقہ نہیں کہ جس کا فیصلہ کرنے کا اختیار بیلفر کو حاصل ہو۔

یورپ پر یہودیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے کا الزام

مزے کی بات یہ کہ اس اعلامیہ میں یہودی بڑوں نے پورے یورپ پر یہ سنگین الزام لگایا کہ انہوں نے یہودیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا۔ یعنی بانیان اسرائیل کے مطابق یہودیوں کے قاتل اس وقت کے براعظم یورپ کے لوگ تھے۔ اور سبھی کو معلوم ہے کہ یورپ میں کرسچن آبادی تھی۔ یعنی یہ کرسچن یہودی تنازعہ تھا۔ اور یورپ میں تو آرتھر بیلفر کا برطانیہ بھی شامل تھا تو کیا وجہ ہے کہ آج بھی برطانیہ سمیت پورے یورپ میں یہودیوں کے مزے ہی مزے ہیں!؟

یہودی آج بھی یورپ میں مزے کررہے ہیں

جن یہودی بڑوں نے فلسطین کی عرب اکثریتی سرزمین پر یہودی نسلی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا، وہ انہی ممالک سے نقل مکانی کرکے فلسطین آئے تھے جہاں آج بھی یہودی عیش و عشرت کی زندگی گذاررہے ہیں۔

سفید فارم نسل پرست اور یہودی نسل پرست

تو سوال یہ بنتا ہے کہ کیا یہ براعظم یورپ کے سفید فام نسل پرستوں اور یہودی نسل پرستوں کا کوئی فکسڈ میچ ہے کہ اب تک دونوں ہی پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں اور فلسطینی، عرب و مسلمان اور دیگر غیر سفید فام اور غیر یہودی اقوام کے لیے یہی دنیا جہنم بنادی گئی ہے!؟

قانونی حیثیت

جہاں تک معاملہ ہے اقوا م متحدہ کی قراردادوں کا تو اسرائیل کے بابایان قوم نے 29نومبر 1947ع کی قراردادکو اپنے اعلامیہ میں ریفرنس کے طور پر بیان کیا تھا، یہ دلیل بھی غیر قانونی ہے۔

اس حوالے سے قانونی لحاظ سے بات کی جائے تو اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے غیر مقامی آبادی کادوسروں کی جغرافیائی حدود میں آزاد و خود مختار ریاست (نیشن اسٹیٹ) بنانا ایک غیر قانونی عمل تھا۔

نیشن اسٹیٹ فلسطین بنانا عرب فلسطینیوں کاقانونی حق

ا قوام متحدہ کی جانب سے نیشن اسٹیٹ کی رکنیت کی شرائط کے مطابق مقامی فلسطینی آبادی قانونی لحاظ سے اپنی نیشن اسٹیٹ بناسکتی تھی، غیر ملکی یہودیوں کا وہاں قانونی لحاظ سے حق نہیں تھا۔

Israel controls United States thru Jewish officials in Biden administration ?
اقوام متحدہ کا دائرہ اختیار

جس قرارداد کا ریفرنس اسرائیل کے قیام کا اعلان کرنے والے غیر ملکی یہودی بڑوں نے دیا،اسکی بھی کوئی حیثیت ہی نہیں کیونکہ فلسطین میں یورپ کے یہودیوں کو ملک بنانے کی اجازت دینا تو اقوام متحدہ کے اپنے دائرہ اختیار میں بھی نہیں تھا۔

فلسطین شروع سے یہودی ریاست کا مخالف

اور اس دور میں فلسطین کی عرب قیادت ہی اپنی سرزمین کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی مجاز تھی۔ فلسطینی عرب قیادت نے تقسیم فلسطین کے کسی بھی منصوبے کو قبول نہیں کیا۔ فلسطین کی عرب قیادت نے فلسطین میں یہودی ریاست کو یکسر مسترد کردیا اور نسل پرست یہودی دہشت گردی اور یہودی نسلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت بھی کی۔

عرب اکثریتی فلسطین پر یہودی قبضہ میں سیموئیل ہربرٹ کا کردار

سیموئیل ہربرٹ نام کا ایک برطانوی یہودی سیاستدان 1902ع میں برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بنا۔ سال1905ع تا1909برطانوی وزارت داخلہ کا انڈر سیکریٹری رہا۔ بعد ازاں پوسٹ ماسٹر جنرل رہا۔

سیموئیل ہربرٹ کا خفیہ خط

جنوری 1915ع ہی میں اس نے فلسطین کے مستقبل سے متعلق ایک خفیہ خط لکھا تھا۔ جون 1920ع میں برطانوی حکومت کی طرف سے یہی یہودی فلسطین کے لیے پہلے ہائی کمشنر یعنی سفیر کی حیثیت سے بیت المقدس پہنچا۔ وہاں یہ پانچ برس تعینات رہا۔

بیلفر اعلامیہ کی حیثیت!؟

اور لارڈ آرتھر بیلفر برطانوی نے یہ اعلامیہ یا خط لارڈ روتھس چائلڈ یہودی کو سال 1917ع کے نومبر میں لکھا تھا۔ تب فلسطین سلطنت عثمانیہ کی مرکزی حکومت کے ماتحت جغرافیائی علاقہ تھا۔ ٰٓخ ایایک ایک برطانوی وزیر خارجہ کا محض ایک خط یا اعلان کسی دوسرے ملک کے کسی حصے پر کسی تیسرے غیر مقامی فریق کو حق حاکمیت کیسے دے سکتا ہے!؟

یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ نہیں!!۔

ایک برطانوی وزیر نے اپنے ہی ملک کے ایک شہری کو خط لکھا۔ یا دنیا کے یہودیوں اور صہیونیوں کو برطانوی سلطنت کی طرف سے ہمدردی کا پیغام بھیجا۔ اس میں بھی واضح لکھا ہے کہ جس سرزمین پر وہ یہودیوں کے نیشنل ہوم کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اسکا نام فلسطین ہے، اسرائیل نام کی سرزمین تو کبھی تھی ہی نہیں!۔

اسرائیل کا غیر قانونی وجود

اسرائیل کا وجود دنیا میں رائج جمہوریت کے مروجہ سیاسی اصولوں کی ضد پر ہے کیونکہ یہ عرب اکثریتی فلسطین پریہودی اقلیت کی حکمرانی کے اصول پر غیر ملکی یہودیوں نے غیر قانونی طور پر خفیہ سازشوں اور دہشت گردی کے ذریعے قائم کیا ہے۔

ارض اسرائیل ہاشلیما کے لیے خفیہ سازش

اور تب سے اب تک اسرائیل ارض اسرائیل کو ارض اسرائیل ہاشلیما میں تبدیل کرنے کے لیے خفیہ سازشوں میں مصروف ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کو امریکا کے توسط سے اسرائیلی دارالحکومت منوانے تک کا یہ سفر گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے متعلق ناقدین کی رائے کو درست ثابت کررہا ہے کہ نہیں!؟

تحریر : غلام حسین

(گریٹر اسرائیل منصوبہ سے متعلق حقائق.. مزید نکات اگلی تحریر میں پیش کیے جائیں گے)

متعلقہ مضامین

Back to top button