اہم ترین خبریںپاکستان

دنیا کے مایہ ناز ماہر امراض چشم شہید ڈاکٹر علی حیدر اور انکے کمسن فرزند مرتضیٰ حیدر کو بچھڑے8برس بیت گئے

تفصیلات کے مطابق کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے سابق پرنسپل پروفیسر ظفر حیدر اور لیکچرارایناٹومی ڈیپارٹمنٹ پروفیسر طاہرہ بخاری کے فرزند،عالمی ادارہ انٹرنیشنل بائیو گرافیکل کی جانب سے دنیاکے 100 ماہر ترین ڈاکٹرز کی فہرست میں شامل عالمی شہرت یافتہ ماہر امراض چشم  شہید ڈاکٹر علی حیدر کی آج آٹھویں برسی منائی جارہی ہے ۔

شیعیت نیوز: دنیا کے مایہ ناز ماہر امراض چشم شہید ڈاکٹر علی حیدر اور انکے کمسن فرزند مرتضیٰ حیدر کو بچھڑے8برس بیت گئے،شہید ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے کمسن فرزند کے قاتل آج بھی آزاد، ریاست اہل خانہ کو انصاف دینے میں ناکام ، شہید ڈاکٹر کے بزرگ والد جوان بیٹے اور معصوم پوتے کے شہادت کو زخم دل میں لئےتین برس قبل جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ فقط فرقہ کی بنیاد پر نشانہ بنائے گئے ڈاکٹر علی حیدر کا شمار دنیا کے 100 ماہر ڈاکٹرز میں کیا جاتا تھا۔

تفصیلات کے مطابق کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے سابق پرنسپل پروفیسر ظفر حیدر اور لیکچرارایناٹومی ڈیپارٹمنٹ پروفیسر طاہرہ بخاری کے فرزند،عالمی ادارہ انٹرنیشنل بائیو گرافیکل کی جانب سے دنیاکے 100 ماہر ترین ڈاکٹرز کی فہرست میں شامل عالمی شہرت یافتہ ماہر امراض چشم  شہید ڈاکٹر علی حیدر کی آج آٹھویں برسی منائی جارہی ہے ۔

شہید ڈاکٹر علی حیدر اور ان کےکمسن فرزند مرتضیٰ حیدر کو سعودی نوازکالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ کے سفاک دہشت گر دوں نے18 فروری 2013 کی صبح لاہور میں سر عام بے دردی کےساتھ گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان حکومت کا ایک اور انوکھا اقدام، بابائے طالبان سمیع الحق کے فرزند کو سینیٹ کا ٹکٹ جاری کردیا

پروفیسر ظفر حیدر خود ایک ماہر سرجن تھے۔ اُن کی زیر تربیت تیار ہونے والے ڈاکٹرز اور سرجنز آج بھی دنیا بھر میں خدمات انجام دیتے ہونگے لیکن جو تحفہ انہوں نے انسانیت کو اپنے بیٹے ڈاکٹر علی حیدر کی صورت دیا تھا، اُس کا تو کوئی بھی ثانی نہیں۔ بینائی سے محروم انسانوں کو بینائی دینے والا تحفہ، ایک قابل ترین ماہر امراضِ چشم جس کا نام دنیا کے سو قابل ترین ڈاکٹرز کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

اس ملک کو ڈاکٹر علی حیدر جیسا تحفہ دینے والے پروفیسر ظفر حیدر کو اپنی زندگی میں ہی نہ صرف اپنے بیٹے کے جنازے کو کاندھا دینا پڑا بلکہ اپنے پوتے کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے سپرد خاک ہوتا دیکھنا پڑا۔ سنا ہے کے تدفین کے وقت وہ مسلسل "وا محمداؐ” کی صدائیں دیتے رہے تھے۔ اور بلاخر تین سال قبل یہ ضعیف باپ سینے میں بیٹے اور پوتے کے قتل کا زخم لیے خود بھی دنیا سے رخصت ہوگیاتھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button