اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی

شاہ کے ملک بدر ہونے کی خبر جب پیرس میں آیت اللہ خمینی کو ملی تو ان کا ردعمل بھی صرف دو لفظ پر مشتمل تھا۔ اللہ اکبر۔ ایران کی تاریخ کا نیا باب اس کے نام سے شروع ہو رہا ہے

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی حصہ دوم

سال1979ع سیاہ پوش ایران

یکم جنوری، یہ کیسا نیا سال چڑھا ہے کہ جو خبر آتی ہے، خون میں نہائی ہوئی آتی ہے اور غسل کے بعد سیاہ ماتمی لباس پہن لیتی ہے۔ وقت کے صرف دو رنگ ہیں، سرخ اور سیاہ۔ مشہد اور زنجان میں فوجی بغاوت، سینکڑوں افراد ہلاک۔ سنندج یہ پارچہ خون می شود۔ شہر قم یک پارچہ آتش است۔

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی  حصہ اول

"<yoastmark

قم کا محاصرہ

سپاہیوں نے قم کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ لوگ گھروں میں بند ہیں۔ کشتار عظیم در قزوین، اصفہان و نجف آباد میں فداکاری ملت کے مناظر۔ تبریز را در آتش و خون غرق کردند۔۔۔۔ سرتاسر ایران سیاہ پوش و عزادار است۔“

آٹھ جنوری 1979ع

سارے ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جابجا گولی چل رہی ہے۔ مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کل بھی ہڑتال تھی اور آج بھی ہڑتال ہے۔ حکومت چونکہ ہڑتال روک نہیں سکتی اس لئے وہ بھی کوئی بہانہ بناکر ہڑتال کی اپیل میں شامل ہوجاتی ہے۔

ہڑتال اور فقط ہڑتال

14جنوری، ہر شے جسے چلنا چاہئے تھا، وہ کھڑی ہے۔ ریل، بس، ٹرک، ہوائی جہاز، سب بے حرکت۔ ہر شے جسے کھلنا چاہئے وہ بند ہے۔ بنک، ہوائی اڈہ، اور بازار بزرگ۔ وزراء کے دفاتر مقفل، طلباء کے وظائف بند، ہوسٹل بند، تعلیمی ادارے بار بار بند۔“

ایران نے آزادی چھین لی

”ہر وہ قانون جو لوگوں کو ناپسند ہے، اس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ان میں وہ قانون بھی شامل ہے جس کی رو سے ایران میں رہنے والا امریکی باشندہ ایران کے جرم و سزا کے قوانین اور عدالت و انصاف کے نظام کے تابع نہیں۔۔

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی حصہ دوم

ایرانی عدالتوں کا جو اختیار پندرہ سال پہلے مجلس کے اراکین نے سلب کیا تھا، اسے لوگوں نے بالآخر انقلاب کی بدولت واپس اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ کرمان میں لوگوں نے امریکی فوج کے ایک کرنل کو گھیرا اور اپنے حق حاکمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ہلاک کر دیا۔“

شاہی خاندان ایران سے فرار

15 جنوری، یہ ملک اب رہنے کے لائق نہیں رہا۔ شاہی خاندان کے افراد آج اسے چھوڑ کر امریکا چلے گئے۔ صرف رضا شاہ اور فرح دیبا رہ گئے ہیں۔ محل کی تنہائیاں بڑھ گئی ہیں اور وسعتیں تنگ ہوگئی ہیں۔“ ”یہ 1953ء نہیں 1979ء ہے“۔

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی

”میں دن بھر کا تھکا ماندہ ہوں۔ چل چل کر۔۔۔۔ دیکھ دیکھ کر۔۔۔۔ سوچ سوچ کر تھک گیا ہوں۔ یہ دیکھ کر تھکن بڑھ گئی ہے کہ آج قومی ریڈیو اور ٹی وی سے چھ بجے شام کی خبریں نشر ہوئیں نہ دس بجے رات۔۔۔ سونے کا وقت ہے مگر نیند اڑ گئی ہے۔ چاند نہ جانے کہاں چھپ گیا ہے۔۔ سڑک کی بتیاں بند ہیں۔۔ اندھیرا، گھپ اور گہرا ہے۔

شاہ ایران محمد رضا پہلوی فرار

اگر روشنی کی کوئی کرن کہیں سے پھوٹ رہی ہے تو وہ ایک اخبار ہے۔ اخبار بھی نہیں بلکہ ایک ورق کا ضمیمہ ہے۔ آج شام کو شایع ہوا تھا۔ ایک طرف بالکل خالی۔ دوسری طرف آدھے صفحے پر سرخی لکھی ہوئی ہے۔ باقی صفحے پر آٹھ دس سطر کی عبارت ہے۔ سرخی صرف دو لفظ پر مشتمل ہے۔ شاہ رفت۔ نصف صدی کی پہلوی سلطنت کا قصہ دو لفظ میں تمام ہوگیا۔

اللہ اکبر، ایران کی تاریخ کا نیا باب

شاہ کے ملک بدر ہونے کی خبر جب پیرس میں آیت اللہ خمینی کو ملی تو ان کا ردعمل بھی صرف دو لفظ پر مشتمل تھا۔ اللہ اکبر۔ ایران کی تاریخ کا نیا باب اس کے نام سے شروع ہو رہا ہے جو زمین اور آسمانوں کا بادشاہ ہے۔

یکم فروری 1979ع

جانے والا شہنشاہ ہے اور آنے والا درویش۔۔۔ جانے والے کو لوگ بے ایمان، ظالم اور گنہگار، اس کے خاندان کو فساد کی جڑ، اس کے ساتھیوں کو شیطان کا ٹولہ اور اس کی حکومت کو رژیم ابلیسی لکھتے ہیں۔ اخبار، رسالے، کتابیں، پمفلٹ، پوسٹر، اس طرح کے القابات سے بھرے پڑے ہیں۔

مرگ بر شاہ

اور جب اس شخص کے بارے میں کچھ کہنا ہو تو پہلے پانچ دس لاکھ افراد جمع ہوکر ایک جلوس نکالتے ہیں، پھر مل کر نعرہ لگاتے ہیں، مرگ بر شاہ۔ آنے والے کو لوگ رہبر، بزرگ، قائداعظم، بت شکن، آیت اللہ، آیت اللہ العظمٰی، نائب امام، امام اور فرشتہ لکھتے ہیں اور جب اس کے بارے میں کچھ کہنا ہو تو پہلے دس پندرہ لاکھ افراد جمع ہوکر ایک جلوس نکالتے ہیں اور پھر مودب ہوکر کہتے ہیں درود بر خمینی۔“

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی

”مہر آباد کے ہوائی اڈے سے بہشت زہرا ؑ کے قبرستان تک سارا راستہ دیدار کے لئے آنے والوں سے اٹا پڑا ہے۔ یہ فاصلہ تینتیس کلو میٹر ہے۔ لوگ پروانہ وار کھنچے کھنچے آئے ہیں۔ دیوانہ وار منتظر ہیں۔ اس موقع پر ٹیلیویژن پہلوی خاندان کا شاہی ترانہ بجا رہا ہے۔ بے عقلی کوئی شہر نہیں کہ اس کی فصیل ہو۔ حماقت کوئی ملک نہیں کہ اس کی سرحد ہو، یہ ایک خلا ہوتا ہے جس میں ہر شے بے وزن اور معلق ہوتی ہے۔ تہران کا ٹی وی اس وقت ایسے ہی ایک خلا میں تیر رہا ہے۔“

ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کے خاتمہ کی سوغات

”بیس پچیس لاکھ افراد بیس پچیس میل تک راہ میں آنکھیں بچھائے کھڑے ہوں، لوگ غیابت اور انتظار کے معنی جانتے ہوں، آنے والا آیت اللہ العظمٰی ہو، وہ ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کے خاتمہ کی سوغات ہمراہ لا رہا ہو، اس نے پہنچنے سے پہلے ہی ملک کی تاریخ اور لوگوں کی سوچ بدل دی ہو اور آنے والا اپنے ہی گھر واپس آرہا ہو تو ہر آنکھ کے آشیانہ بن جانے اور ہر دل میں گھر کر لینے والے دعویٰ پر کون ایمان نہ لائے گا۔

اس منظر کا چشم دید گواہ

میں تو اس منظر کا چشم دید گواہ ہوں۔“ ”آیت اللہ کی گاڑی کو کون راستہ دیتا ہے۔ سب کہتے ہیں ہمارے اوپر سے گذر کر چلے جائیے۔ لوگوں کی یہ بات مان لی گئی۔ آیت اللہ ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگئے اور لوگوں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے بہشت زہرا ؑ کے قبرستان کے قطعہ نمبر 17 میں جا اترے۔“

آیت اللہ کی آمد کے چند گھنٹے بعد

سہ پہر کو میں موٹر لے کر نکلا۔ دیکھوں! شہر کی کیا حالت ہے، شہر والوں کی کیا کیفیت ہے۔۔۔ سڑکیں لوگوں سے بھری ہوئی ہیں، ایک سرشاری کا عالم ہے، کوئی گھر کے اندر ٹھہرنے کے لئے راضی نہیں۔ آنکھیں روشن، باچھیں کھلی، چال بدلی ہوئی ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی

کچھ ڈوبتے سورج کی تھکی ہوئی کرنوں اور کچھ میری خوش فہمی کے باعث یوں لگا جیسے آیت اللہ کی آمد کے چند گھنٹے بعد وہ تمام نوجوان جن کے چہرہ پر آج صبح سبزہ نظر آتا تھا، یکایک باریش ہوگئے ہیں۔

نوجوانوں کی گھنی اور سیاہ داڑھیوں میں دن بھر کے اندر جو اضافہ ہوا ہے، اس کا سبب میں نے سائنس کی مدد سے خود ہی دریافت کرلیا۔ خوف سے اگر بال سفید ہوجاتے ہیں یا گر جاتے ہیں تو خوشی کے موقع پر انہیں فوراً نکلنا اور سیاہ ہونا چاہئے۔“

امام خمینی کی تقریر

”آیت اللہ کی تقریر جذباتیت، شعریت، اور خیال بندی سے خالی تھی۔ جوش، ہیجان، آگ اور دھوئیں سے عاری تھی۔ نہ کوئی فخریہ بات جو ایسے موقع پر بے اختیار منہ سے نکل جاتی ہے، نہ فتح مندی کا نشہ جو کامیابی کے بعد بن بتائے چڑھ جاتا ہے۔ ساری تقریر استدلالی اور منطقی تھی۔۔۔۔

غیر ملکیوں کی غلامانہ فرماں بردارحکومت پر تنقید

کہا کہ محمد رضا شاہ کی حکومت بہر عنوان غیر قانونی ہے، اس نے ایران کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا زور تین باتوں پر تھا؛ معیشت کی تباہی، اخلاق کی تباہی اور غیر ملکیوں کی غلامانہ فرماں برداری۔ اخلاق کی تباہی کے سلسلے میں انہوں نے یہ مثال دی کہ تہران میں میخانوں کی تعداد کتب خانوں سے کہیں زیادہ ہے۔“

تاریخ ساز تاریخی استقبال

”ہر شخص استقبال کو بے مثال اور بے نظیر کہہ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ آج تک کسی فرد واحد کے استقبال کے لئے اتنے لوگ جمع نہیں ہوئے۔ یہ سب اپنی مرضی سے آئے تھے، انہیں کوئی گھیر کر نہیں لایا تھا۔ نہ کوئی سرکاری ادارہ اس کام پر مامور تھا، نہ کوئی سیاسی پارٹی اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔۔۔۔

اتنے سارے لوگ خود بخود استقبال کے لئے جمع

اس کے باوجود اتنے سارے لوگ خود بخود استقبال کے لئے جمع ہوگئے کہ تبصرہ نگار تاریخ کی کتابیں کھنگال رہے ہیں۔ حوالہ تلاش کر رہے ہیں۔ واقعات کے موازنہ میں مصروف ہیں۔ کیا پہلے کبھی ایران میں ایسا ہوا ہے، حاصل تحقیق، نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔“

انقلاب اسلامی ایران

نو 9، 10 اور 11 فروری 1979ع۔۔

پولیس بھاگ رہی ہے، تھانے خالی ہو رہے ہیں۔ جہاں کہیں پولیس کو بھاگنے کا موقع نہیں ملا، وہاں وہ ہتھیار ڈال رہی ہے۔ جو تھانہ بہت بدنام ہو اور عملے کو جان کا خطرہ ہو، وہاں پولیس والے آیت اللہ خمینی کی تصویر اٹھائے درود پڑھتے باہر آجاتے ہیں۔ عوام کا غصہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔۔۔۔۔ ہر مرد، عورت اور بچہ شاہی فوج اور پولیس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

فوج کی پسپائی

مسلمان بپا خیز، کا اعلان ہو رہا ہے۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ہیں۔۔۔۔گھمسان کا رن ہمیشہ فیصلہ کن ہوتا ہے اور امن لڑائی کا فیصلہ ہونے کا نام ہے۔ آج تیسرا دن ہے۔ چار بجے سہ پہر فوج کی طرف سے ایک اعلان جاری ہوا۔ موجودہ سیاسی جھگڑے میں فوج غیر جانبدار رہے گی، لہٰذا فوجیوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ بیرکوں میں واپس آجائیں۔۔۔

 آیت اللہ خمینی کی تصویریں آویزاں

فوجی ادارے خاموش اور فوجی اڈے سنسان ہوگئے۔ ہر جگہ ڈیوٹی پر تعینات سپاہی فرار ہوگئے۔ درجہ دار فوجیوں نے اپنی وردیاں پھاڑ دیں۔ درجے کے نشان نوچ ڈالے۔ بڑے افسر گھروں میں بند ہوکر بیٹھ گئے۔ بعض فوجیوں نے اپنے ٹھکانوں پر آیت اللہ خمینی کی تصویریں آویزاں کرلیں۔ جس فوجی کے جی میں جو آیا اس نے وہی کیا۔ شکست خوردہ فوج کا ہمیشہ یہی انجام ہوتا ہے۔“

عوام نے کنٹرول سنبھال لیا

تھانوں اور چھاؤنیوں پر عوامی قبضے سے بات چلی اور دور تک نکل گئی۔ عوام نے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کرلیا۔ عوام نے وزیراعظم کے دفتر اور گلستان پیلس پر قبضہ کرلیا۔ تہران کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو گرفتار کرلیا۔

نیا ایران معرض وجود میں آگیا

ریڈیو کہتا ہے توجہ بفرمائید۔۔۔ این صدائے انقلاب است۔ ٹی وی پر نیا ترانہ بجایا گیا۔ اس نئے ترانے کے ساتھ نیا ایران وجود میں آگیا۔ اس وقت شام کے سات بجے ہیں۔ بادشاہت کا سورج غروب ہوگیا ہے۔ میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

گیارہ 11 فروری 1979ع

آج اتوار کا دن ہے، گیارہ تاریخ ہے، مہینہ فروری کا ہے، سال عیسویں 1979ء ہے۔ شام کا وقت ہے، میں موم بتی کی روشنی میں روزنامچہ لکھ رہا ہوں۔ خوشی کے مارے موم بتی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ہیں۔

انقلاب اسلامی ایران کی کہانی پاکستانی سفارتکار کی زبانی حصہ دوم

فوج نے امام خمینی کی نامزد کردہ حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف انقلابیوں نے اسرائیلی سفارتخانے کو آگ لگادی۔ آج کا دن انقلاب اسلامی ایران کا محض پہلا دن ہے۔

Illegal nuclear power Israel and their allies run campaign against Iran

متعلقہ مضامین

Back to top button