اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

ایک اور چراغ بجھ گیا !! ڈاکٹر ریحان اعظمی نہ رہے

فقط ریحان اعظمی دنیا سے رخصت نہیں ہوئے بلکہ اسی اور نوے کی دہائی میں بڑے ہونے والے بچوں کے دلوں میں نوحہ خوانی کی محبت پروان چڑھانے والا ایک استاد بھی رخصت ہوگیا۔ اس دور میں ان کے لکھے ہوئے نوحے چاہے سفیر عزا ندیم سرور نے پڑھے یا شہنشاہ نوا ناصر زیدی نے ، بارگاہ معصومین علیھم السلام مقبول قرار پائے۔ جس طرح نوحے اور سلام بہت لوگ پڑھتے ہیں، سب ہی مودت و عقیدت سے پڑھتے ہیں لیکن کچھ پڑھنے والوں کو سن کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان پر پاک و مطھر ہستیوں کی خاص نظر کرم ہے۔ بالکل اسی طرح بعض لکھنے والوں کا کلام پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے قلم پر پاک و مطھر ہستیوں کی نظر کرم ہو۔ جیسے مرحوم پیارے خان اور میر حسن میر کی آواز میں نور محسوس ہوتا ہے، ویسا ہی نور ریحان اعظمی کے کلام میں محسوس ہوتا تھا۔

ہوش سنبھالنے سے لیکر اب تک ریحان اعظمی کے کئی بے مثل کلام سنے لیکن ایک نوحہ ایسا ہے جس کا مقطع میرے ذہن میں ہمیشہ کیلئے نقش ہوکر رہ گیا۔ بعض دفعہ کچھ باتوں یا جملوں کا ربط کسی مخصوص واقعے سے کچھ ایسا طرح قائم ہوجاتا ہے کہ وہ الفاظ اور واقعہ ہمیشہ کیلئے ذہن میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ آپ جب کبھی بھی وہ الفاظ سنتے ہیں آپ کو فورا وہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ آج سے پچیس برس یا اس سے بھی پہلے ہوا جب میں ایام عزا میں ٹیپ ریکارڈ پر ریحان اعظمی کا لکھا اورندیم سرور کا پڑھا ہوا لازوال نوحہ "مل کے سب ماتم شبیر ع کریں، دل بہ دل سینہ بہ سینہ کربلا تعمیر کریں” سن رہا تھا۔ قریب ہی میری دادی مرحومہ اپنے بستر پر آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھیں۔ نوحے کے چند اشعار ختم ہوئے تو دادی اٹھ کر بیٹھ گئیں اور غور سے نوحہ سننے لگیں۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ مقطع کا آخری مصرعہ سن کر وہ کس طرح بے اختیار جھوم اٹھی تھیں، جیسے ان کی آس، امید اور ان کے یقین کو ریحان و سرور نے زبان دے دی ہو:

کہہ دیں گے ریحان و سرور
حشر میں جب خاتون محشر ع
پوچھیں گی یہ بات جو آکر
چاہیے کیا ماتم کی بنا پر
ہم کہہ دیں گے ہم کو غلام شبر ع شبیر ع کریں
مل کے سب ماتم شبیر ع کریں

یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر ریحان اعظمی جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

ایسے ہی کتنے کلام ہوں گے جن کی بدولت ریحان اعظمی نے میری دادی مرحومہ جیسے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی آس اور امید کو ان کے جذبات اور یقین کو زبان دی ہوگی ۔

ریحان اعظمی نے ایک بار کسی انٹرویو میں ذکر کیا تھا کہ اس شہر میں انتقال کر جانے والے مومنین و مومنات کی ایک کثیر تعداد کی قبروں کے کتبوں پر میرے کہے ہوئے شعر لکھے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ کسی کا کوئی پیارا انتقال کر جاتا ہے تو وہ مجھے فون کرکے کہتے ہیں کہ ریحان بھائی ہمارے پیارے کیلئے ایک شعر لکھ دیجئے، قبر کے کتبے پر لکھوائیں گے۔ دراصل ان سب لوگوں کو یقین تھا کہ ریحان اعظمی ہماری امید اور آس کو، ہمارے احساسات و جذبات کو زبان دینا جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اپنے پیاروں سے بچھڑنے کے غم پر غم حسین علیہ السلام اور مودت اہلیبیت علیھم السلام کا مرہم کیسے رکھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ تو یہ بھی سوچتے ہونگے جس شخص نے جواں سال بیٹے کی جدائی کا غم سہا ہو اور اس غم پر اہلیبیت علیھم السلام کی خوشی کو مقدم رکھ کر پرسہ دینے والوں سے التجا کی ہو کہ آج اہلیبیت ع کی خوشی کی تاریخ ہے، آج جشن کی محفل ہوگی، بیٹے کا پرسہ ہمیں بعد میں دیجئے گا۔ وہ شخص یقینا مودت اہلیبیت علیھم السلام کے ذریعے ٹوٹے ہوئے دلوں کی دلجوئی کا ہنر جانتا ہوگا۔

آج وہی ریحان اعظمی اس فانی دنیا کو الوداع کہہ کر بارگاہ معصومین علیھم السلام میں انتقال کر گئے۔ ایک عہد تھا جو تمام ہوا البتہ ان کے لکھے لازوال نوحے انہیں ہمیشہ زندہ و جاوید رکھیں گے۔ وہ لوگوں کے پیاروں کی قبروں کے کتبوں کیلئے ہمیشہ شعر لکھتے رہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی قبر کے کتبے پر لکھنے کیلئے بھی کوئی شعر وصیت کرگئے ہوں۔ ان لازوال مصرعوں جیسا کوئی شعر جنہیں سن کر میری دادی مرحومہ جھوم اٹھی تھیں:

کہہ دیں گے ریحان و سرور
حشر میں جب خاتون محشر ع
پوچھیں گی یہ بات جو آکر
چاہیے کیا ماتم کی بنا پر
ہم کہہ دیں گے ہم کو غلام شبر ع شبیر ع کریں
مل کے سب ماتم شبیر ع کریں

متعلقہ مضامین

Back to top button