اہم ترین خبریںپاکستان

28دسمبر2009سانحہ عاشورا کراچی، 11سال بیت گئے، درجنوں شیعہ سنی عزاداران حسینؑ کےقاتل تاحال آزاد

تمام ناصبی دہشت گردوں کے خلاف پہلے ہی سر سید پولیس تھانے میں دفعہ نمبر 4/5اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 7کے تحت دھماکہ خیز گولہ بارود رکھنے سمیت مقدمات درج تھے۔

شیعیت نیوز: سانحہ جلوس عاشورا کراچی کو گذرے11 برس بیت گئے ہیں،28 دسمبر 2009 کوہونے والے اس اندہوناک سانحے میں کئی درجن شیعہ سنی عزاداران حسینی ؑ لقمہ اجل بننے ۔ اس سانحےمیں ملوث ملک دشمن سعودی نواز کالعدم سپاہ صحابہ /لشکر جھنگوی کے سفاک دہشت گرد تاحال قانون کی گرفت سے آزاد اور متاثرہ خاندان ریاست سے انصاف کے طلبگار۔

تفصیلات کے مطابق سانحہ عاشورائے کراچی کو بیتے 11سال کے قریب کا عرصہ ہو چکا ہے تاہم پولیس سمیت رینجرزاور دیگر قانون نافذ کرنے والے حساس ادارے سنہ 2009ء میں یوم عاشورائے حسینی (ع) میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث ناصبی تکفیری دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔جبکہ سانحہ عاشورائے کراچی کے کیس کی فائل منوں مٹی تلے دبائی جاتی نظر آ رہی ہے۔

واضح رہے کہ سنہ 2010ء میں سانحہ عاشورا بم دھماکے میں ملوث ناصبی تکفیری دہشت گرد سٹی کورٹ کے احاطے سے اپنے ناصبی دہشت گرد ساتھیوں کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے جس کے بعد تاحال ان کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔

سنہ 2010ء میں تین ناصبی تکفیری دہشتگرد مرتضیٰ عرف شکیل،محمد ثاقب فاروقی اور وزیر محمد کو کالعدم دہشتگرد تکفیری گروہ جند اللہ کے دہشت گردوں نے سٹی کورٹ سے ایک حملے کے بعد فرار کروایا تھا جبکہ دہشتگردوں کا یک ساتھی مراد شا ہ پولیس کی جوابی فائرنگ میں ہلاک ہو گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امارات و اسرائیل فلسطین کے پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے خاتمے کے لیے سرگرم

ناصبی تکفیری دہشت گردوں کا تعلق کالعدم دہشت گرد گروہ جند اللہ سے تھا جبکہ ان پر دسمبر 2009ء میں چار مسلسل بم دھماکوں کے مقدمے تھے جن میں 7,8,9 محرم سمیت روز عاشورائے حسینی (ع) کو مرکزی جلوس میں بم دھماکہ کرنے کا مقدمہ بھی شامل تھا۔

واضح رہے کہ سانحہ عاشورائے کراچی میں 50سے زائد عزاداران امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تھے جبکہ ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں بچے،خواتین ،جوان اور بزرگ شامل تھے۔

ناصبی تکفیری دہشت گردوں پر چار بم دھماکوں بشمول سانحہ عاشورا بم دھماکے کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 3میں تاحال التوا کا شکا ر ہے ۔26جون سنہ2010ء کو ناصبی دہشت گردوں کو ایک اور مقدمہ کی سماعت کے لئے سٹی کورٹ لایا گیا تھا جہاں پر ناصبی تکفیری دہشت گردوں کے ساتھیوں نے پولیس پر ایک مسلح حملہ کر تے ہوئے تینوں ناصبی دہشت گردوں کو پولیس کی حراست سے آزاد کروا لیا تھا جبکہ ان کا ایک ناصبی دہشتگرد مراد شاہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 3 نے فرار ہونے والے تینوں ناصبی دہشت گردوں کی گرفتاری کے لئے تاوقت گرفتاری وارنٹ جاری کرتے ہوئے پولیس کی ہدایات جاری کی تھیں کہ تینوں ناصبی دہشت گردوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔
آج سانحہ عاشورائے کراچی میں ملوث ناصبی دہشت گردوں کو فرار ہوئے ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے تاہم پولیس اور حساس ادارے دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آخر ان تینوں خطر ناک ناصبی دہشت گردوں پر چلائے جانے والے مقدمات کی جیل کے احاطے میں کیوں کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ؟جبکہ پولیس اور حساس اداروں کو اس بات کا علم تھا کہ ناصبی تکفیری دہشت گرد انتہائی خطر ناک مجرم ہیں اور ان کو فرار کروانے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔

دوسری جانب تفتیش کار ٹیموں کو مکمل یقین ہے کہ فرار ہونے والے دہشت گردوں کا سانحہ عاشورا میں اہم کردار تھا۔تاہم حیرت انگیز بات ہے کہ پولیس اور جیل حکام کی جانب سے خاطر خواہ سیکورٹی انتظامات کے نہ ہونے کی وجہ سے ناصبی دہشت گرد احاطہ عدالت سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: محمد بن سلمان نے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر مجھے قتل کرنے کی کئی بارکوشش کی، سید حسن نصراللہ

قانونی ماہرین کاکہنا ہے کہ انتہائی اہم ترین اور بڑے مقدمات میں اس طرح سے دہشت گردوں کی طویل غیر حاضری یا عدم گرفتاری کے باعث مقدمات کمزوری کا باعث بنتے ہیں اور اس کا فائدہ دہشتگردوں کو ملتا ہے۔

مشاہدے میں آیاہے کہ متعدد مقدمات میں گواہوں کی عدم دستیابی اور بیانات کو تبدیل کرنے یا عدالت میں پیش نہ ہونے اور دہشت گردوں کی جانب سے موت کی دھمکیوں کے خوف کی وجہ سے بھی سیکڑوں انسانوں کے قاتل دہشتگردوں کو آزادی مل جاتی ہے اور مقدمات کمزور ہو جاتے ہیں۔اور طویل مدت گزر جانے کی وجہ سے پولیس بھی گواہوں کے ساتھ اپنے روابط کو برقرار نہیں رکھ پاتی اور آخر کار مقدمات کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سانحہ عاشورا سمیت کراچی میں دسمبر 2009ء میں محرم الحرام کے جلوسوں میں بم دھماکوں میں ملوث ناصبی تکفیری دہشت گردوں کو 23جنوری 2010کو ہاکس بے کے علاقے میں پولیس آپریشن کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔گرفتاری کے وقت ناصبی تکفیری دہشت گردوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر جلوس عزاء کو کار بم دھماکے کا نشانہ بنانے والے تھے۔

گرفتار ہونے والے ناصبی تکفیری دہشت گردوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کے تحت مقدمات کی تفصیل انسداد دہشت گردی کی عدلات نمبر 3کو بھیجے گئے تھے جہاں پر ناصبی دہشت گردوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کرمنل کوڈ 265-Cکے تحت دفعات چارج کی گئی تھی۔تاہم ناصبی دہشتگرد احاطہ عدالت سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: قائد اعظم ؒ کے یوم ولادت پران کی اولادوں کا لاپتہ عزاداروں کی بازیابی کیلئے ان کے مزار پر احتجاج

ناصبی تکفیری دہشت گرد مرتضیٰ عرف شکیل اور ثاقب فاروقی یوم عاشورائے حسینی (ع) میں جلوس عزاء کے دوران بم دھماکہ کرنے میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ 8محرم الحرام کو پاپوش نگر میں جلوس عزاء میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی ملوث ہیں ۔واضح رہے کہ پاپوش نگر دھماکے میں تین عزاداران امام حسین علیہ السلام زخمی ہوئے تھے۔

ناصبی تکفیری دہشت گرد مراد شاہ،حیدر،حسنین اور ساجد 9محرم الحرام کو اورنگی ٹاؤن میں دوران جلوس عزاء ہونے والے بم دھماکے میں ملوث تھے تاہم پولیس نے ان تمام دہشتگردوں کے خلاف مقدمات قائم کئے تھے۔یاد رہے کہ اورنگی ٹاؤن میں جلوس عزاء کے دروا ن ہونے والے بم دھماکے میں سترہ عزاداران امام حسین علیہ السلام زخمی ہو گئے تھے۔

تمام ناصبی دہشت گردوں کے خلاف پہلے ہی سر سید پولیس تھانے میں دفعہ نمبر 4/5اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 7کے تحت دھماکہ خیز گولہ بارود رکھنے سمیت مقدمات درج تھے۔

گو کہ سانحہ عاشورائے کراچی کو 11سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن پولیس ،رینجرز او ر قانون نافز کرنے والے اداروں سمیت حساس ادارے ابھی تک احاطہ عدالت سے فرار ہونے والے عاشورا بم دھماکے میں ملوث ناصبی تکفیری دہشت گردوں کو گرفتار نہیں کر سکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button