اہم ترین خبریںمقالہ جات

شہید خرم ذکی اور علامہ ضمیر اختر کی ایک ملاقات || مرتضی حیدر

پھر ہم چند دوست جو تصویروں میں موجود ہیں رات 1:30 بجے انکی رہائشگاہ پہنچے جو سندھی مسلم سوسائٹی گلوریا جینز والی گلی میں واقع تھی۔

شیعیت نیوز: سن 2013 کی سردیوں کی رات1 بجے، حسب معمول ویک اینڈ پر نارتھ کراچی میں شہید خرم ذکی کے ساتھ ان کے مستقبل کی جائے شہادت پر بیٹھے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے ہم دوستوں کو بھوک لگی۔ کسی کے پاس کچھ خاص ہیسے نہیں تھے نہیں تو سوچنا شروع کیا کہ کیا کیا جائے ۔

ایک دم خرم بھائی نے کہا، خالد بھائی علامہ صاحب کو فون ملائیں۔ خالد بھائی نے علامہ ضمیر اختر کو فون ملایا اور کہا لیں بھائی آپ خود بات کریں۔ علامہ ضمیر اختر نے خود فون اٹھایا اور خرم بھائی نے اپنے روایتی انداز(جس سے قریبی دوست خوب واقف ہیں) میں کہا۔۔۔

یہ بھی پڑھیں: فرقہ وارایت کی آگ لگانے کیلئےیہود ونصاریٰ نےاپنے پےرول پر تکفیری جماعتوں کی پشت پناہی شروع کردی ہے، علامہ باقرزیدی

خرم زکی: ہاں۔۔۔۔ علامہ صاحب ۔۔۔۔ سلام و علیکم

علامہ ضمیر اختر : وعلیکم السلام

خرم زکی: سید خرم ذکی عرض کر رہا ہوں

علامہ ضمیر اختر: ہاں ہاں

خرم ذکی: علامہ صاحب ہم آرہے ہیں بہت بھوک لگ رہی ہے، کیا کھلایں گے ؟

علامہ ضمیر اختر: آجاوء ، جو بولو گے کھلا دینگے۔

پھر ہم چند دوست جو تصویروں میں موجود ہیں رات 1:30 بجے انکی رہائشگاہ پہنچے جو سندھی مسلم سوسائٹی گلوریا جینز والی گلی میں واقع تھی۔

یہ بھی پڑھیں: انتظامیہ غیر آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے، مسلسل شیعہ قوم کی حیثیت پر حملہ کر رہی ہے،علامہ اسد زیدی

ان کے گھر پہنچے تو وہ اپنے کتب خانے میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے جسے علامہ صاحب نے کتابوں کے درمیان بچھایا ہوا تھا۔

سلام اور حال احوال کے بعد علامہ صاحب نے اپنے بٹوے سے گنے بغیر پیسے نکال کر مجھے دیئے اور کہا جاو جو دل چاہ رہا ہے کھانے کا لے آو۔ اور ہمارے لیے فلانی دوا بھی لیتے آنا۔

جب کھانا کھانے بیٹھے تو علامہ ضمیر اختر نے دسترخوان اپنے ہی بستر کے پاس لگوادیا اور نذر کی مٹھائی بھی لے آئے۔

جب بھی ہم علامہ ضمیر اختر سے ان کے گھر ملنے جاتے تھے تو خرم بھائی سلام دعا کے بعد ان کی کتابیں ٹٹولنا شروع ہو جاتے تھے اور کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتے اور باتوں کے ساتھ ساتھ پڑھنے بھی لگ جاتے تھے، جو تصویروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جسکا علامہ ضمیر اختر نے کبھی برا نہیں مانا۔

سیاسی و مذھبی باتوں کے دوران مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوئے، خرم بھائی کی کسی بات پر علامہ ضمیر اختر نے کہا

علامہ ضمیر اختر: خرم جسکی تم بات کر رہے ہو وہ بات ایک ناول "تھیرسا” میں بھی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تکفیریت نے ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کے لیے ایک بار پھر کمرکس لی ہے،ملک اقرارحسین

جس پر خرم بھائی نے زور سے داد دینے والے انداز میں کہا ، واہ علامہ صاحب کیا بات ہے، بلکل یہی بات ہے، میرے ذہن میں نام نہیں آرہا تھا، ماشاللہ آپکا حافظہ کمال کا ہے۔

پھر علامہ ضمیر اختر نے اپنے مشہور ِ زمانہ انداز میں کہا، اٹھو وہ اوپر اس خانے کی اس والی کتاب کے برابر میں رکھی ہوئی ہے۔

خرم بھائی نے وہ ناول نکلا اور دیکھ کر کہنے لگے بچپن میں پڑھا تھا یہ۔ پھر پوچھا، علامہ صاحب یہ ناول میں لے جاؤں ؟ پڑھ کر واپس کر دونگا۔ جس پر علامہ ضمیر اختر نے انہیں منع کرتے ہوئے بڑے کمال کا جملہ کہا کہ

جو ہماری اپنی لکھی ہوئی کتابیں ہیں وہ جتنی چاہے لے جاؤ اور وہ وہاں رکھی ہوئی ہیں ۔ مگر کتب خانے کی کتابیں بس یہیں پڑھنے کے لیے ہیں۔

علامہ ضمیر اختر: “ ہم اپنے کتب خانے کی کتابیں کسی کو دیتے نہیں، اس سے کتب خانے کی برکت اٹھ جاتی ہے”

علامہ ضمیر اختر بہت یاد آئیں گے۔

تحریر: مرتضی حیدر
ستمبر، 13، 2020

متعلقہ مضامین

Back to top button