لبنان نے مغربی اور عرب ریاستوں پر انحصار چھوڑ کر چین کا رخ کر لیا
شیعت نیوز : مغربی اور عرب ریاستوں کے ساتھ بات چیت میں پیشرفت نہ ہونے کے بعد لبنان نے معاشی مدد کے لئے چین کا رخ کر لیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق لبنان چین سے سرمایہ کاری کے حصول کے لئے کوشاں ہے جبکہ لبنان نے معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے مغرب اور عربوں پر انحصار کرنا چھوڑ رہا ہے۔
ایجنسی نےشائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہےحسن دیاب کی حکومت اس وقت مغربی اور عرب ریاستوں کے ساتھ بات چیت میں پیشرفت نہ ہونے کے پس منظر میں ، چینی تعاون کی تلاش میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں : حزب اللہ اور تحریک جہاد اسلامی کا اتحاد اہم ہے۔ فلسطینی مزاحمتی رہنما
اس نیوز ایجنسی نے لکھا ہے کہ حسن دیاب نے اب کو رواں ماہ کے شروع میں ، لبنان میں چینی سفیر اور اس کے بعد لبنان کے وزیر برائے صنعت کو بیجنگ کے ساتھ تعاون کے مواقع کا مطالعہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
حسن دیاب نے کہا ہے کہ ہم نے بہت سنجیدگی سے چین کی طرف بڑھنا ہے ، لیکن ہم مغرب سے بھی تعلقات ترک نہیں کر رہے ہیں ہم غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں ، اور ہم ان سب کا خیرمقدم کرتے ہیں جو ہماری مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عہدیدار نے نشاندہی کی کہ چین نے اپنی سرکاری کمپنیوں کے ذریعے لبنان میں دہائیوں پرانے توانائی بحران کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنے کی تجویز پیش کی ہےذرائع کا کہنا ہے کہ بیروت حکومت فی الحال اس تجویز پر غور کررہی ہے۔
دوسری جانب معاشی عہدیدار حسن مقلید کا کہنا ہےکہ بیجنگ نے بیروت اور وادی بقاع کو ملانے والے ایک سرنگ ، بجلی گھر اور لبنان کے ساحل پر ایک ریلوے لائن قائم کرنے کی پیش کش بھی کی ہے۔حسن مقلید جنہوں نے 2018 اور 2019 میں متعدد بار چین کا دورہ کیا ہے،انہوں نے بیجنگ کے تجویز کردہ منصوبوں کی مالیت کا تخمینہ 12.5 بلین ڈالر بتایا۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ اس سرمایہ کاری سے دونوں فریقوں کو فائدہ ہوسکتا ہے ، اور اس طرف اشارہ کیا گیا کہ چین لبنان کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے سے فائدہ اٹھا سکتا ہےرپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں طرابلس کی لبنانی بندرگاہ جس میں توسیع کی گئی ہے ، چینی ’’سلک روڈ‘‘ منصوبے کا ایک اہم مقام بن سکتا ہے۔
ادھر لبنان میں مقیم امریکی سفیر ڈوروتی شی نے لبنانی حکومت کو بیجنگ کے ساتھ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے حوالے سے خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ چین کے ساتھ سرمایہ کاری سے ملک کے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے اور اس کے تعلقات لبنان کے لیے نقصان دہ ہے۔