اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جاتمقبوضہ فلسطین

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں  (چوتھی قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں  (چوتھی قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں  (چوتھی قسط) .. یہ وہ تاریخی پس منظر ہے جس کے تناظر میں آج کے مسئلہ فلسطین کو درست طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ قانونی، جمہوری، تاریخی و مذہبی اصولوں کے تحت بھی اسرائیل نامی ریاست ایک ناجائز وجود تھا، ہے اور اپنے خاتمے تک ایسا ہی رہے گا۔

دہشت گردی اور دھاندلی کی بنیاد پرفلسطین پر اسرائیل نام کے ناجائز قبضے کو فلسطینیوں نے مسترد کردیا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں نے بھی اسکو مسترد کردیا تھا۔ عرب اکثریت نے اسرائیل کے قیام کو مسترد کردیا تھا تو 1948 ع میں جنگ ہوئی۔

بیت المقدس یروشلم کے مغربی حصے پر قبضہ

اسی جنگ میں اسرائیل نے بیت المقدس شہریروشلم کے مغربی حصے پر قبضہ کرلیا۔ بظاہر اس نے تل ابیب کو دارالحکومت قرار دیا۔ مگر پوری دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل کے سارے اہم ریاستی و سرکاری اداروں کا اصل صدر مقام اسی مغربی یروشلم میں ہیں۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ، ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم بھی مغربی یروشلم میں ہیں۔

کہنے کی حد تک، قانونی ریکارڈ میں یروشلم ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور اسرائیل ایک غیر قانونی قابض قوت ہے مگر 1948ع سے یہ دھاندلی چلی آرہی ہے کہ غیر قانونی قبضہ ختم نہیں کروایا جارہا۔

 بیت المقدس یروشلم پر اسرائیل کا مکمل قبضہ

بلکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ جون 1967ع کی جنگ کے بعد سے پورے بیت المقدس پر پورے یروشلم پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہے۔ یوں تو پورا اسرائیل ہی غیر قانونی قبضہ ہے مگر یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو اقوام متحدہ نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔

یہ کہہ دینا کہ قبضہ غیر قانونی ہے، اقوام متحدہ کا درست فیصلہ ہی سہی لیکن سوال یہ ہے کہ اس غیر قانونی قبضے کو ختم کروا نے کی ذمے داری بھی تو اقوام متحدہ ہی کی تھی۔ اقوام متحدہ اپنی یہ ذمے دارے انجام دینے میں مکمل ناکام رہا ہے۔

مسلمان و عرب ممالک میں نت نئے مسائل ایجاد

اسرائیل نے امریکا کے ساتھ مل کر اور امریکا نے اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسلمان و عرب ممالک میں نت نئے مسائل ایجاد کرکے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے سے توجہ ہٹانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ افغانستان و عراق میں امریکی بلاک نے باقاعدہ خود یلغار کی۔ شام میں پراکسی دہشت گرد گروہوں کے ذریعے اور انکی پشت پناہی کرکے وہاں فلسطین دوست ریاست کو کمزور کردیا۔

لبنان میں بعض اسرائیل نواز،سعودی نواز و مغرب نواز گروہوں کے ذریعے داخلی طور پر لبنانیوں کو غیر منقسم کررکھا ہے۔ یمن میں سعودی و اماراتی عرب فوجی اتحاد نے یلغار کرکے جنگ کو طول دے رکھا ہے۔ مصر اور سوڈان میں بھی اسرائیل نواز حکمران مسلط کرنے کے لئے رژیم چینج کروائی ہے۔

شہید قدس لیفٹننٹ جنرل حاج قاسم سلیمانی

ایران پر مفلوج کردینے والی پابندیوں کو نافذ کرکے اسے بھی فلسطین کی حمایت کرنے کی سزا دی ہے۔ فلسطین کی قومی مزاحمتی تحریکوں کی مدد کرنے والی ایرانی ریاست کے عسکری ادارے پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل حاج قاسم سلیمانی کو غیر قانونی طریقے سے عراق میں امریکا نے اس لئے شہید کیا کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے مظلوم فلسطینیوں کے ہیرو تھے۔ فلسطینی حرکت مقاومت اسلامی حماس کے رہنما اور فلسطین کے سابق وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے انہیں شہید قدس قرار دیا۔

جمہوری، قانونی و پارلیمانی جدوجہد

اسی طرح حشد الشعبی عراق یا حرکت انصار اللہ یمن یا حزب اللہ لبنان کے سرکردہ افراد کو اس لئے شہید کیا جاتا رہا کہ یہ اپنے مادر وطن سے اسرائیل کے تربیت کردہ دہشت گردوں یا اسرائیل کے مددگاروں کے خلاف جمہوری، قانونی و پارلیمانی جدوجہد میں بھی مصروف تھے۔

ڈیل آف دی سینچری

آزاد فلسطین کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے والوں کو اس طرح مشکلات سے دوچارکرکے 28 جنوری 2020ع کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت نے رسمی طور پر ڈیل آف دی سینچری پیش کردی۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔

فلسطین کی نمائندگی کرنے والی ساری تحریکوں اور جماعتوں اور نام ور قائدین نے اس منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جب ٹرمپ نے یہ اعلان کیا تو اس تقریب میں متحدہ عرب امارت، بحرین اور عمان کے سفیروں نے بھی شرکت کی۔

حالانکہ یہ تینوں ملک عرب لیگ، جی سی سی اور ایک بڑی بین الاقوامی اسلامی ممالک کی تنظیم کے بھی رکن ہیں۔ مگر ان تینوں تنظیموں کے سربراہی یا دیگر کسی اجلاس میں ان کی شرکت کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ کم سے کم انکی رکنیت ہی معطل کردیتے۔

او آئی سی کا مطالبہ

اسلامی ممالک کی تنظیم کا انگریزی مخفف او آئی سی زیادہ معروف ہے۔ 1969ع میں مسجد اقصیٰ کی آتش زدگی کے وقت یہ تنظیم قائم ہوئی۔ اسکا عارضی ہیڈ کوارٹر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم کے چارٹر میں ہے کہ اسکا مستقل ہیڈکوارٹر بیت المقدس میں قائم ہوگا۔ او آئی سی آزادی فلسطین پر یقین رکھا کرتی تھی۔

او آئی سی کا مطالبہ رہا ہے کہ بیت المقدس دارالحکومت کے ساتھ یک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔

سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں

مگر او آئی سی ایک طویل عرصے سے بیت المقدس اور آزاد فلسطینی ریاست کے حوالے سے سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کررہی۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے اپنے اسرائیل نواز دوست امریکا کے مفادات پر او آئی سی کے رکن مسلمان ممالک کو اعلانیہ قربان کردیا ہے۔

عرب ممالک فلسطین پر امریکی ڈکٹیشن مان چکے

اسپین کی میڈرڈ کانفرنس سے سعودی عرب امریکی و زایونسٹ لابی کے فلسطین دشمن منصوبوں میں کھلا سہولت کار نظر آتا ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ عرب ممالک فلسطین پر بھی امریکی ڈکٹیشن مان چکے ہیں، صرف اعلان باقی ہے۔

اسرائیل نواز امریکا کے لئے سعودی عرب کی خدمات

اسرائیل نواز امریکا کے لئے سعودی عرب کی خدمات کی تفصیلات بھی امریکی حکام بیان کرچکے ہیں۔سعودی عرب نے پہلے یاسر عرفات کو ذلیل و خوار اور رسوا کیا۔ پہلے اس نے تنظیم آزادی فلسطین کی قیادت کو رسوا کیا۔ اب حماس کی قیادت کی تذلیل میں مصروف ہے۔

میڈرڈ کانفرنس میں سعودی بادشاہ اورشہزادے نے فلسطینیوں کو اردن کے وفد کی نشستوں پر بیٹھنے پر مجبور کیا کیونکہ اسرائیل فلسطین کو قبول نہیں کرتا تھا اور تنظیم آزادی فلسطین کو دہشت گرد کہتا تھا۔

 سعودی خدمات کا  تذکرہ

سابق سعودی سفیر و انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ بندر بن سلطان پر انکے ایک دوست ولیم سمپسن نے دی پرنس کے عنوان سے کتاب میں یہ روداد تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں ایسی سعودی خدمات کا بھی تذکرہ ہے جس کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو ہوا۔

 کونڈولیزارائس نے لکھا

ایسی ہی خدمات میں سے ایک سعودی خدمت سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزارائس نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب نو ہائیر آنر میں بیان کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ سعودی عرب کی مددسے انہوں نے وہ اسلحہ پکڑا جو یاسرعرفات کے لئے بذریعہ سمندر بھیجا جارہا تھا۔ کونڈی رائس کے مطابق یہ اسلحہ ایران فلسطینی مسلح کارروائیوں کے لیے بھیج رہا تھا۔

یہ محض چند مثالیں ہیں جس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ بیت المقدس سمیت پورے فلسطین کی آزادی کی ناکامی کے داخلی اسباب کیا ہیں۔

اس وقت بیت المقدس سمیت پورے فلسطین کی آزادی کے لئے جو تحریکیں مصروف عمل ہیں، انکا نیٹ ورک زیادہ تر غزہ کے علاقے میں ہے۔

امریکا کا کردار ایماندار ثالث کا نہیں

مغربی کنارے کے علاقے میں محمود عباس کی قیادت میں ایک محدود فلسطینی انتظامیہ ہے جو تنظیم آزادی فلسطین کی رکن تحریک الفتح کے رہنماؤں پر مشتمل ہے یا انکی حمایت یافتہ ہے۔ کسی حد تک مغربی ممالک اس فلسطینی انتظامیہ کی حیثیت کو قبول بھی کرتے ہیں۔ اب یہ فلسطینی انتظامیہ بھی کہہ چکی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے امریکا کا کردارایک ایماندار ثالث کا نہیں ہے۔

تاریخی حقائق یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ بیت المقدس سمیت فلسطین پر یہودی ملکیت کا دعویٰ غیر منطقی و غیر منصفانہ ہے۔ نسل پرست یہودیوں کی تشریح مان لی جائے تب بھی اولاد ابراہیم ہونے کے ناطے بھی عربوں کے فلسطین پر حق سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔

ہگانہ، لیوی، ارگن تو خود فرعونی گروہ

اگر مذہبی تشریح مان لی جائے تب بھی اسرائیل کا قیام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے سو فیصد خلاف ہے۔ کیونکہ نسل پرست یہودی گروہ ہگانہ، لیوی، ارگن تو خود فرعونی گروہ تھے۔ اور اسرائیل نے طول تاریخ میں عربوں کے ساتھ وہی کچھ کیا ہے جو بنی اسرائیل کے ساتھ مصر کے فرعون نے کیا تھا۔

مذہبی لحاظ سے بھی صرف مسلمان ہی بیت المقدس کا اصل تقدس بحال رکھنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ، مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اوران سے پہلے کے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی انکے اپنے عہد کے نبی کی حیثیت سے مانتے ہیں۔

ایک اہم مذہبی پہلو

یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺ کو اللہ کے نبی کی حیثیت سے نہیں مانتے۔ عیسائی یا مسیحی حضرت محمد ﷺ کو اللہ کے نبی کی حیثیت سے نہیں مانتے۔ اس لئے یہودیوں اور عیسائیوں سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ اسلامی مقدسات کا احترام کریں گے۔ یہودیوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسیحی و اسلامی مقدسات کا احترام کریں۔ یہ اس معاملے کا ایک اہم مذہبی پہلو ہے۔

مسئلے کا سیاسی حل

جبکہ اس مسئلے کا سیاسی حل یہ ہے کہ فلسطین کے اصل باشندوں کو ووٹر بناکر ریفرنڈم میں ان سے رائے لی جائے تاکہ بیت المقدس سمیت پورے فلسطین کی سیاسی حیثیت اور سیاسی نظام حکومت کے حوالے سے انکی رائے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاسکے۔ دیگر ممالک سے لاکر بسائے جانے والے یہودیوں کو انکے آبائی وطن بھیجا جائے اور وہاں انکو آباد کروایا جائے۔

یہ وہ سیاسی حل ہے جو امام خامنہ ای صاحب نے تجویز کیا ہے کہ اصل فلسطینی باشندے ریفرنڈم میں فیصلہ کریں۔ چونکہ فلسطین کے اصل باشندوں میں فلسطینی عرب اور یہودی دونوں ہی شامل ہیں جبکہ عربوں میں مسلمان اور مسیحی دونوں ہی شامل ہیں تو ریفرنڈم میں بھی صرف فلسطینی شہریوں کو حق رائے دہی ملنا چاہیے نہ کہ غیر فلسطینیوں کو۔

عالمی یوم القدس

اور ایران ہی وہ ملک ہے کہ جس نے اقوام عالم کو تاریخ کے سرد خانے میں فراموش شدہ مسئلہ فلسطین و القدس کی جانب متوجہ کیا۔ امام خمینی نے عالمی یوم القدس کے عنوان سے ایک دن بیت المقدس اور خاص طور پر حرم شریف قبلہ اول القدس کے لئے مخصوص کردیا۔

ایسا اس لئے ہے کہ اقوام عالم اور خاص طور عرب و عجم مسلمانوں کو یادرہے کہ یہ مقدس سرزمین یہ مقدس حرم آج بھی اسرائیل کے قبضے میں ہے اور اسکی آزادی مسلمانوں پر قرض ہے۔

اگر حکمران اور اقوام متحدہ سفارتکاری کے ذریعے یہ قبضہ ختم کرانے کی اہلیت کے حامل ہوتے تو کب کا یہ آزاد ہوچکا ہوتا۔ اس لئے القدس کی آزادی کے لئے فلسطینیوں کے پاس سوائے مسلح مقاومت کے کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔ وہ تو اپنی ذمے داری نبھارہے ہیں۔

مگر یہ سوال سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت پوری عرب لیگ سے بھی اور انکے قبضے میں پھڑپھڑاتی او آئی سی سے بنتا ہے کہ وہ کب اسرائیل کی نابودی کے لئے اپنی اسلامی، عربی اور انسانی ذمے داری ا نجام دیں گے۔ یمن، شام اور سوڈان میں تو انہوں نے خوب تباہیاں مچادیں یا مچوادیں، اسرائیل کی ایسی کی تیسی کب کریں گے!؟۔ عالم اسلام و عرب منتظر ہے، جناب!۔

غلام حسین برائے شیعت نیوز اسپیشل

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (پہلی قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (دوسری قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (تیسری قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں  (چوتھی قسط)

Some latest examples of illegal activities of United Stated and Israel in ME

متعلقہ مضامین

Back to top button