اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جاتمقبوضہ فلسطین

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (تیسری قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (تیسری قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (تیسری قسط)۔ بیت المقدس یروشلم کی تاریخ کے حوالے سے یہ تحریر ایک ٹائم لائن کے طور پرپیش کی جارہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک عام انسان کو بھی اس مقدس شہر کے تاریخی پس منظر سے آگاہی کے ساتھ اس ایشو پر کوئی عالمانہ، عاقلانہ، آزاد نہ و منصفانہ رائے قائم کرنے میں مدد ملے۔

دوسری قسط میں اس مقدس شہر پر برطانوی کنٹرول تک کا مرحلہ بیان کیا گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے فاتحین نے مشرق وسطیٰ کے موجودہ کچھ ممالک کو اپنے اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ اس میں انہوں نے لیگ آف دی نیشنز کا بھی استعال کیا۔

برطانیہ اور فرانس کا کردار

اس جنگ میں برطانیہ اور فرانس کا کردار نمایاں تھا۔ البتہ امریکا بھی ان سے پیچھے نہیں رہا تھا۔ جرمن بادشاہت اور سلطنت عثمانیہ اتحادی تھے۔ انہیں شکست ہوئی تھی۔ جنگ عظیم اول کی اس شکست کی وجہ سے ترک سلطنت عثمانیہ کا سقوط ہوا۔ انکے کنٹرول میں جو علاقے تھے ان میں شام و فلسطین و بیروت بھی شامل تھے۔

لیکن جنگ کے اختتام پر فلسطین کو مینڈیٹ یا انتداب کے نام پر برطانوی حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا۔ شام اور لبنان فرانس کے حصے میں آئے تھے۔ جنگ عظیم اول کے دوران ہی صہیونی یہودی تنظیم کے رہنماؤں کو خوش کرنے کے لئے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بیلفور نے لارڈ روتھس چائلڈ کو ایک خط لکھا تھا جسے بیلفور اعلامیہ کہا جاتا ہے۔

زایونسٹ آرگنائزیشن

پہلی جنگ عظیم سے کہیں پہلے نسل پرست یہودی صہیونی تنظیم جسے زایونسٹ آرگنائزیشن کہا جاتا ہے یہ قائم ہوچکی تھی۔ اس کا نظریہ فلسطین میں دوبارہ یہودی ریاست قائم کرنا تھا۔ اس کے لئے انہوں نے انیسویں صدی میں ہی یہ نظریہ باقاعدہ طور پر پیش بھی کردیا تھا۔

روس اور آسٹریا ہنگری سلطنتوں میں زایونسٹ افکار کی تبلیغ ہوچکی تھی۔ اس تنظیم کے مختلف یہودی رہنماؤں نے مختلف محاذوں پر اس ضمن میں فعالیت دکھائی تھی۔ زایونسٹ تنظیم کا بانی صدر تھیوڈور ہرزل تھا۔

 تھیوڈور ہرزل کی جوزف چیمبرلین سے پہلی ملاقات

اس نے 1902ع میں برطانوی وزیر برائے نوآبادیات جوزف چیمبرلین سے پہلی ملاقات کرکے یہودی وطن کا نظریہ پیش کیا تھا۔ دوسری ملاقات میں خود جوزف چیمبرلین نے 1903ع میں ہرزل کو برطانیہ کے کنٹرول میں جومشرقی افریقی نوآبادی تھی وہاں یہودیوں کو وطن بنانے کے سلسلے میں تعاون کا اشارہ دیا تھا۔

صہیونی تنظیم کا منظم نیٹ ورک

صہیونی تنظیم نے جرمنی، برطانیہ اور دیگر جگہوں پر اپنا منظم نیٹ ورک بھی قائم کررکھا تھا۔ برطانیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ نے سال 2017ع میں ایک سابق اسرائیلی سفارتکا ر کو انٹرویو میں علی الاعلان کہا تھا کہ اسرائیل کے قیام میں انکے روتھس چائلڈ خاندان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ حئیم ویزمین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا، بیلفور اعلامیہ کے سلسلے میں اس نے بھی پس پردہ اہم کردار ادا کیا تھا۔

اسی طرح زرعی تحقیق کے عنوان سے کام کرنے والا آرون آرونسن بھی این آئی ایل آئی کے نام سے ایک جاسوسی نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ انہی دنوں لارنس آف عربیہ بھی اسی خطے میں اپنا نیٹ ورک چلارہا تھا۔

کنگ کرین کمیشن

سن1919ع میں پیرس امن کانفرنس میں امریکی صدر وڈروولسن کی درخواست پر پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین اور شام کے مستقبل سے متعلق وہاں کے عوام کا رویہ جاننے کے لئے کنگ کرین کمیشن قائم کیا گیا۔ ہنری کنگ امریکی اوبرلن (اوہائیو) کالج کے صدر تھے۔ جبکہ چارلس کرین ایک امریکی تاجر تھے۔

انہوں نے10 جون 1919ع تا 21جولائی 1919ع تک شام و فلسطین کا دورہ کرکے مقامی آبادی سے مل کر انکا موڈ سمجھا اور تحریری رائے بھی جمع کیں۔ عرب آبادی نے شام کو فرانس کے کنٹرول میں دینے کی مخالفت کی جبکہ غالب اکثریت نے فلسطین کے لئے زایونسٹ منصوبے کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا اور اسکی مخالفت بھی کی۔

جیوش نیشنل ہوم کی اصطلاح

اس وقت نسل پرست یہودی سیاسی صہیونی تنظیم یعنی زایونسٹ آرگنائزیشن کے پیروکاروں نے فلسطین پر قبضے کے لئے جیوش نیشنل ہوم کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ جب اس تاریخ پر تفصیلی تحریر پیش کی جائے گی تو زایونسٹ آرگنائزیشن اور نظریے کو اس میں شامل کیا جاسکے گا۔

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (تیسری قسط)

قصہ مختصر یہ کہ گیارہ مرتبہ امریکی کانگریس کے رکن رہنے والے پال فنڈلے کے مطابق کنگ کرین کمیشن کی رپورٹ میں فلسطین پر یہودی دعوے کو مسترد کردیا تھا۔ کنگ کرین کمیشن نے دوہزار سال قبل اس علاقے پر قبضے کو بنیاد بناکر یہودی دعویٰ ملکیت کو غیر سنجیدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

طول تاریخ میں یہودیوں کے علاوہ کئی قومیں بیت المقدس یروشلم سمیت پورے فلسطین میں آباد رہیں ہیں۔ یہودیوں سے زیادہ تعداد میں اور زیادہ وقت یہاں مسلمان آباد رہے ہیں۔ گوکہ نسل پرست یہودیوں کی سیاسی زایونسٹ تحریک نے غیر قانونی طریقوں سے پوری دنیامیں پھیلے ہوئے یہودی فلسطین میں لاکر آباد کئے۔

فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا

انہوں نے خفیہ دہشت گرد گروہ بناکرفلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ساتھ ہی بڑی طاقتوں سے سا زباز کرکے 1948ع میں مقبوضہ فلسطین میں اپنا ملک اسرائیل بنانے کا رسمی اعلان بھی کردیا۔ مگر اس وقت بھی فلسطین میں عرب آبادی کی واضح اکثریت تھی۔

اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے قیام کے اعلان کے لئے تل ابیب میں 14مئی 1948ع کو جو اجتماع ہوا، اس میں کل 37یہودی بزرگان جمع ہوئے مگر ان 37میں صرف ایک یہودی فلسطین کا پیدائشی شہری تھا اور باقی35 یہودی بزرگان دور دراز کے یورپی ممالک کے پیدائشی شہری تھے۔ جبکہ ان میں سے ایک یہودی یمن کا باشندہ تھا۔

غیرملکی یہودیوں کا فلسطین پر قبضہ

اس وقت اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے کسی علاقے کو نیشن اسٹیٹ کی حیثیت سے رکنیت کی جو شرائط تھیں، اسرائیل ان شرائط پر بھی پورا نہیں اترتا تھا۔ جمہوری، قانونی اور اخلاقی اصولوں کو مد نظر رکھ کر منصفانہ بات کی جائے تو غیرفلسطینی یہودیوں کو فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کا اعلان کرنے کا کوئی حق ہی نہیں تھا۔

فرض کریں کہ اگر مقامی فلسطینی یہودی بھی ایسا مطالبہ کرتے تب بھی جمہوری اصولوں کے تحت انہیں بھی یہ حق نہیں تھا کیونکہ مسلمان و غیر مسلمان عرب فلسطینیوں کی وہاں غالب اکثریت تھی۔

بالفور اعلامیہ کی کوئی اخلاقی و قانونی حیثیت نہیں

اسرائیل کے قیام کے لئے غیر فلسطینی 36یہودی بابایان قوم کے اعلان میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور کے ایک اعلامیہ کو دلیل بنانے کی بھی کوئی اخلاقی و قانونی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ فلسطین برطانیہ کا کوئی صوبہ یا شہر نہیں تھا کہ اس سے متعلق کوئی بھی فیصلہ لارڈ بالفور کرتے۔

اور وہ بھی ایسا فیصلہ کہ فلسطین کو کسی غیر فلسطینی آبادی کے لئے باقاعدہ ایک ملک کے طور پر وقف کردینے کا فیصلہ! یہ دلیل بھی بذات خودنہ صرف ایک غیر منصفانہ دلیل ہے بلکہ ایسی احمقانہ دلیل ہے جسے سنگین مزاح کہیں تو غلط نہ ہوگا۔

عرب فلسطین کی دو تہائی اکثریتی آبادی تھے

جس وقت بالفور نے 1917ع کو یہ اعلامیہ لکھا تب فلسطین میں 6لاکھ عرب اور صرف 60ہزار یہودی آباد تھے۔ اور جب نسل پرست یہویوں نے غیر قانونی نقل مکانی کرکے ڈیموگرافی تبدیل بھی کی یعنی بالفور اعلامیہ کے بعد 1947ع کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد نمبر 181  تک کے درمیانی عرصے میں دنیا بھر سے یہودی فلسطین لاکر آباد کرلینے کے بعد بھی عرب فلسطین کی دو تہائی اکثریتی آبادی تھے اور یہودی محض ایک تہائی تھے۔ بہت سے یہودی تو اس غلط فہمی میں تھے کہ انہیں غیر آباد سرزمین پر آباد کیا جارہا ہے۔

غلام حسین برائے شیعت نیوز اسپیشل

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (پہلی قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (دوسری قسط)

US President unveils ME Peace to Prosperity plan as a piece to severity

متعلقہ مضامین

Back to top button