اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جاتمقبوضہ فلسطین

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (پہلی قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (پہلی قسط)

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (پہلی قسط). اس موضوع پر سب سے پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عرب او ر غیر عرب مسلمان معاشروں میں جس قدیم فلسطینی شہرکو بیت المقدس یا القدس کہتے ہیں، اسے عبرانی زبان میں یروشیلیئم کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے جیروسیلم

(Jerusalem)

لکھتے ہیں اور یہودی عربی رسم الخط میں اسے اورشلیم یا اورسلیم بھی لکھتے ہیں۔ عام اردو میں اسے شہر امن یا شہر سلامتی کہہ سکتے ہیں۔ یہ شہر یہودیت، مسیحیت اور اسلام تینوں کے پیروکاروں کی نظر میں مقدس ہے۔ لیکن اس شہر کے تقدس کا سبب دینی و مذہبی ہے نہ کہ نسلی۔

یہودی اس شہر پر نسلی حق جتاتے ہیں

مگر یہودی اس شہر پر نسلی حق جتاتے ہیں۔ اسکے جواب میں ایک دعویٰ یہاں عربوں کا بھی ہے۔ یاد رہے کہ عرب بھی ایک نسلی شناخت ہے نہ کہ دینی ومذہبی۔ ایک عرب مسلمان بھی ہوسکتا ہے یا پھر مسیحی بھی ہوسکتا ہے۔

چونکہ نسل پرست یہودی نظریے کی بنیاد پر بننے والی غاصب ریاست اسرائیل نے اس مقدس شہرپر غیر قانونی قبضہ کررکھا ہے اس لئے اس شہر کی تاریخ سے متعلق یہ تحریر پیش خدمت ہے۔

غیر مسلم اداروں کی مرتب کردہ معلومات

خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہودی و عیسائی و دیگر غیر مسلم اداروں کی مرتب کردہ معلومات کی بنیاد پر یہ تاریخ تحریر کی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر تورات کی تعلیم دینے یہودی ریبائی، یہودیوں کی جیوش ورچوئل لائبریری یا یہودیوں کی شاباد تحریک، بریٹانیکا انسائیکلو پیڈیا، مغربی و اسرائیلی ذرایع ابلاغ اور نام ور سیاستدانوں کی تصانیف میں بیان شدہ معلومات کو اس تحریر میں پیش کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ یہودیوں نے مقدس سرزمین فلسطین پر قبضے کے وقت بائبل عہد نامہ قدیم کا ریفرنس بھی پیش کیاتھا۔ اسکے علاوہ بالفور اعلامیہ اور اقوام متحدہ کے تقسیم فلسطین کے لئے مجوزہ منصوبے کو بھی اپنے دعوے کی بنیاد قرار دیا تھا۔

 

امریکی کانگریس کے رکن پال فنڈلے کا جواب

انکے اس دعوے کا ایک جواب امریکی کانگریس کے رکن پال فنڈلے نے بھی دیا تھا۔ وہ اسرائیل کے سب سے بڑے طرفدار ملک یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی اسرائیل نواز ری پبلکن پارٹی سے وابستہ وہ رہنما تھے جو گیارہ مرتبہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر امریکی مقننہ ایوان نمائندگان کے رکن رہے۔

پال فنڈلے کے مطابق طول تاریخ میں فلسطین پر قدیم یہودیوں کا کنٹرول کنعانیوں، مصریوں، مسلمانوں اور رومیوں سے بھی کم وقت رہا۔ یعنی فلسطین پر قدرتی اور تاریخی حق یہودیوں سے زیادہ انکا ہے جو یہودیوں سے زیادہ وقت یہاں رہے اور حکومت کی۔

اسرائیل کی دیدہ و دانستہ فریب کاری

انہوں نے اسرائیل کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لئے ایک کتاب بعنوان ڈیلی بریٹ ڈیسیپشنز

(Deliberate Deceptions)

یعنی دیدہ و دانستہ فریب کاری تحریر کی تھی۔ اسکے حصہ اول میں شامل پہلے باب میں ہی فلسطین پر اسرائیلی دعوے کو فریب قرار دیا تھا۔

پال فنڈلے نے لکھا کہ ماہرین آثار قدیمہ متفقہ طورپر مانتے ہیں کہ فلسطین کے قدیم ترین باشندے کنعانی اور مصری تھے۔ انکے بعد ہکسو، حطی اور فلسطینی یہاں آباد ہوئے۔ یعنی یہودی یہاں کے قدیم ترین باشندے بھی نہیں اور نہ ہی یہاں انکی حکومت کا دورانیہ دیگر اقوام سے زیادہ رہا۔

بیت المقدس پر مسلمانوں کی ایک ہزار دو سو چھتیس سال حکومت

مثال کے طورپر سرزمین مقدس فلسطین و بیت المقدس پر مسلمانوں کی حکومت ایک ہزار دو سو چھتیس سال یعنی بارہ صدیوں اور ساڑھے تین عشروں سے زائد طویل عرصے تک رہی ہے۔ اس لئے اس پر اسلامی دعویٰ دیگر مذاہب کے دعووں کی نسبت زیادہ منطقی اور وزنی بھی ہے اور منصفانہ بھی ہے۔ البتہ امریکی ایوان نمائندگان کے رکن پال فنڈلے کی دلیل کو سمجھنے کے لئے سرزمین فلسطین بشمول بیت المقدس کی تاریخ اور لفظ یہودی کی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔

زمانہ قدیم سے یروشلم شہر موجود

جیوش ورچوئل لائبریری کے مطابق زمانہ قدیم سے یروشلم شہر موجود رہا ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ساڑھے چار ہزار برس قبل جو پتھر اور تانبے کا دور کہلاتا تھا، تب سے یہ شہر ہوا کرتا تھا۔ پتھر اور تانبے کے دور کو یونانی زبان میں چیلکولیتھیک دور کہتے ہیں جوتانبہ اور پتھر دو الفاظ سے مرکب ہے۔

پہلی بستی

یاد رہے کہ یہودی تاریخی یہودی منابع کے مطابق بیت المقدس میں پہلی بستی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ساڑھے تین ہزار سال قبل آباد ہوئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں گھروں کی پہلی مرتبہ باقاعدہ تعمیرات ڈھائی ہزار برس قبل از مسیح ہوئی تھیں۔ تاریخ انسانی اس وقت کانسی کے دور سے گذررہی تھی۔ کانسی کا دور 1200قبل از مسیح تک جاری رہا۔ 1800قبل مسیح میں یہاں پہلی شہری دیوار تعمیر ہوئی۔

پہلی مرتبہ یروشلم کا تذکرہ

یہودی تاریخی منابع کہتے ہیں کہ آثار ملے ہیں کہ پہلی مرتبہ اس نام یعنی یروشلم کا تذکرہ چھوٹی اور کچی اینٹوں پر تحریر پایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا 1400 قبل از مسیح ہوا تھا۔

سن 1200قبل مسیح سے انسان تاریخی لحاظ سے لوہے کے دورمیں داخل ہوا۔ یہودی تاریخی منابع کے مطابق اس دور میں کنعانیوں نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ حالانکہ اس سے قبل بھی کنعانی ہی کنٹرول رکھا کرتے تھے کیونکہ خود یہودی یہ مانتے ہیں کہ انہوں نے لفظ یروشلم کا استعمال سب سے پہلے کنعانیوں کے ہی آثار میں پایا ہے۔

حضرت داؤد ع  اورانکے بیٹے حضرت سلیمان ع  کی حکومت

یروشلم یا بیت المقدس پر حضرت داؤد علیہ السلام اورانکے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کی بھی حکومت رہی۔ یہودی بادشاہ داؤ د اور بادشاہ سلیمان کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ایک ہزار دس برس قبل حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت قائم ہوئی جو سن970قبل مسیح تک یعنی چالیس برس جاری رہی۔

یادرہے کہ مسلمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ کا آخری نبی مانتے ہیں اور ان سے قبل جتنے بھی نبی اللہ نے مقرر کئے انکو بھی محترم مانتے ہیں، اس لئے حضرت داؤد علیہ السلام کی بیت المقدس پر حکومت کو مسلمان اللہ کے ایک نبی ؑ کی حکومت کی حیثیت سے مانتے ہیں اور اللہ کے سارے نبی ؑ اللہ کے مطیع و فرماں بردار ہوا کرتے ہیں اور انکا مقصد انسانوں کو اللہ کا حقیقی بندہ بنانا ہوتا ہے اور وہ انسانوں کے ہادی، رہنما و نجات دہندہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہودیوں کا معاملہ جدا ہے۔ انکی سیاست کی بنیاد نسلی تعصب ہے جبکہ اللہ کے انبیاء علیہم السلام سے متعلق ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔

پہلا یہودی کون

لیکن فلسطین وبیت المقدس پریہودیوں نے اپنا نسلی حق جتاکر قبضہ کیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ معلوم کیا جائے کہ دنیا میں پہلا یہودی تھا کون؟ مقبوضہ بیت المقدس میں راسخ العقیدہ یہودیوں کا ایک مدرسہ اور سومایچ ہے۔ یہ تورات کی تعلیمات کی نشر و اشاعت کرتا ہے۔

اسکی  کی ویب سائٹ کے مطابق ریبائی یمی یاہو المین
نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ حضرت آدم و بی بی حوا یہودی نہیں تھے۔ انکے مطابق حضرت نوح علیہ السلا م یا انکے دور کے طوفانی سیلاب کے بعد جو نسلیں تھیں، وہ بھی یہودی نہیں تھیں۔ اس یہودی ریبائی کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور انکے بیٹوں اور پوتے بھی یہودی نہیں تھے۔ بلکہ جب تورات نازل ہوچکی، جو لوگ اس پر ایمان لائے اور مصرسے ہجرت کے وقت ایسے ایمان لانے والے مردوں کی ختنہ ہوچکیں تھیں تو انہوں نے یہودی ہونے کی شرائط کی تکمیل کیں۔

دنیا میں  سب سے پہلے یہودی

یعنی دنیا میں جو لوگ سب سے پہلے یہودی بنے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں ہجرت کرنے والے لوگ تھے۔  خود حضرت موسیٰ ع حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی لاوی کے پوتے عمران کے بیٹے تھے۔ یہودی کون ہوتا ہے اسکی ایک تعریف و تشریح یہ ہے جو بیان ہوئی۔ البتہ یہ مذہبی تشریح ہے۔

یہودی کی نسلی تعریف و تشریح

لیکن اسکی ایک دوسری تشریح بھی ہے جسے نسلی تعریف و تشریح کہا جاسکتا ہے جو دنیا بھر میں خود یہودیوں نے پھیلائی ہے کہ پہلے یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔ قرآن شریف کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود کو اولین مسلمین میں سے قراردیا۔

حضرت ابراہیم ع موجودہ عراق کے باشندے

اگر آج کے دور کی جغرافیائی حدود کے مطابق بات کی جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سابق میسوپوٹیمیا یعنی موجودہ عراق کے باشندے تھے۔ انہوں نے فلسطین ہجرت کی۔ وہاں حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا اس لئے انکے بیٹوں کو بنی اسرائیل کہاجاتا تھا۔ بنی اسرائیل نے فلسطین سے ہجرت کی اورمصر میں سکونت اختیار کی۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے کے پڑ پوتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل نے مصر سے ہجرت کی۔ صاحب تورات پیغمبر خدا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مزار دریائے اردن کے مغربی کنارے میں اریحہ صحرائے یہودا میں ہے۔ یاد رہے کہ بنی اسرائیل کی اگلی نسلیں انبیائے الٰہی علیہم السلام کے احکامات سے روگردانی اور سرکشی کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا رہیں۔

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں (پہلی قسط)

(جاری ہے۔۔۔۔بقیہ دوسری قسط میں)

غلام حسین برائے شیعت نیوز اسپیشل

پاکستانی دنیا بھر سے پاکستان کیوں لوٹ رہے ہیں!؟

Some latest examples of illegal activities of United Stated and Israel in ME

متعلقہ مضامین

Back to top button