اہم ترین خبریںدنیاشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

امریکا طالبان ڈیل اور افغانستان پر کنٹرول کی جنگ

امریکا طالبان ڈیل اور افغانستان پر کنٹرول کی جنگ

امریکا طالبان ڈیل اور افغانستان پر کنٹرول کی جنگ… افغانستان پر زایونسٹ لابی کے کنٹرول کی جنگ نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ افغان نژاد امریکی حکومتی عہدیدار زلمی خلیل زاد اورافغان طالبان کے کمانڈڑ ملاعبدالغنی برادر نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک کاغذی تحریر پر دستخط کئے۔

اس عمل کو امریکا و طالبان معاہدہ یا ڈیل کہا جارہا ہے۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز صورتحال ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو اعلیٰ ترین سطح کے دوطرفہ یا بین الاقوامی معاہدوں سے ہی دستبرداری اختیار کرچکے ہیں تو زلمی خلیل زاد کے دستخط شدہ معاہدے کی کیا اوقات ہے۔

 

ڈیل کا ایک ور دلچسپ پہلو

البتہ اس ڈیل کا ایک ور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ملا عبدالغنی برادر بھی امریکا کا اپنا ہی آدمی ہے۔ اس تحریر کو ان دونوں کے تعارف تک محدود رکھ کر فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ آیا افغانستان میں امن و استحکام اس نمائشی ڈیل سے ممکن ہوسکے گا۔

زلمی خلیل زاد اور ملا برادرکے دستخط شدہ معاہدے کے مطابق امریکا اور دیگر غیرملکی افواج 14ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ مگر یہ فوجی انخلاء مشروط ہے۔ شرط یہ ہے کہ طالبان اس ضمن میں سیکیورٹی ضمانت دے اور یہ عہد کرے کہ وہ افغانستان کی قومی حکومت سے مذاکرات کرے گی۔

 

دوحہ معاہدہ  2 مارچ کو ہی فوت ہوچکا

دونوں نے یہ بھی طے کیا کہ طالبان ایک ہزار مغویوں کو رہا کرے گی۔ اور یہ بھی مشروط ہے۔ شرط یہ ہے کہ بدلے میں افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدی آزاد کرے گی۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس طالبانی شرط کو مسترد کردیا ہے۔ انکا یہ موقف معاہدے سے پہلے بھی تھا اور بعد میں بھی یہی موقف ہے۔

اشرف غنی کے اس موقف کے ردعمل میں افغان طالبان نے امریکا سے ڈیل کے باوجود 2مارچ 2020ع کو بروز پیر افغانستان میں دھماکے کئے اور ذمے داری بھی قبول کرلی۔ اورایک اور مرتبہ قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کیا۔ یعنی دوحہ معاہدہ تو 2 مارچ کو ہی فوت ہوچکا تھا۔

 

ٹرمپ  طالبان رہنما اچھی ٹیلیفونک بات چیت

اسکے اگلے روز 3مارچ 2020ع بروز منگل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ انکی طالبان رہنما سے بہت اچھی ٹیلیفونک بات چیت ہوئی ہے۔ اس بیان سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ ٹرمپ اور طالبان کے مابین سب اچھا چل رہا تھا۔

لیکن افغان طالبان نے ٹرمپ سے اچھی بات چیت کے اگلے روز ایک اور مرتبہ افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے کئے۔ یعنی 4مارچ بروز بدھ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی خبر کے مطابق طالبان حملوں میں کم از کم 20افغان فوجی اور پولیس ہلاک ہوئے۔ جبکہ 0فوجی اور  4 پولیس اہلکار ضلع قندوز ضلع امام صاحب تین سیکورٹی چیک پوسٹ حملوں میں مارے گئے۔

امریکا طالبان ڈیل اور افغانستان پر کنٹرول کی جنگ

چار مارچ ہی کو بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی افواج نے طالبان فائٹرز پر فضائی حملے کئے۔ امریکی افواج کے ترجمان کے مطابق امریکی افواج نے ہلمند میں افغان سیکیورٹی فورسز پر طالبان حملوں کے جواب میں فضائی کارروائی کی۔

خود امریکاکی جانب سے یہ کارروائی بتاتی ہے کہ دوحہ معاہدہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ بلکہ اسکو ٹرمپ اپنی صدارتی الیکشن مہم میں ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے کے موڈ میں ہیں۔ لیکن، اس طرح کی کارروائیوں کے بعد تو ٹرمپ کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

 

دوحہ معاہدہ اور اسرائیل نواز کارپوریٹوکریسی

دوحہ معاہدہ در حقیقت اسرائیل نواز کارپوریٹوکریسی کے افغانستان پر کنٹرول کو مستحکم کرنے کی پرانی کوششوں کی نئی قسط ہے۔ کیونکہ، اس پر دستخط کرنے والے ذلمی خلیل زاد خود کارپوریٹوکریسی مفادات کے نمائندے ہیں۔ جبکہ انکی بیگم چیرل بینارڈ اور وہ خود نظریاتی لحاظ سے امریکا کے زایونسٹ اسرئیلی یا نیوکونزسے تعلق رکھتے ہیں۔

زلمی خلیل زاد

خلیل زاد کو سرد جنگ کے دور کے متنازعہ امریکی یہودی فوجی اسٹراٹیجی کے امور کے ماہر البرٹ جیمز وولسٹیٹر نے زلمی خلیل زاد کو رینڈ کارپوریشن اور امریکی حکومتی حلقوں میں متعارف کروایا تھا۔ یعنی یہ سرد جنگ دور کے اسرائیل دوست قدامت پسندوں کی دریافت ہیں۔ خلیل زاد اور انکی بیوی میں ایک قدر مشترک انکی لبنان میں امریکن یونیورسٹی آف بیروت سے تعلیم بھی ہے۔

زلمی خلیل زاد صدر ریگن کے دور حکومت سے یو ایس گورنمنٹ کے لئے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ یعنی ری پبلکن صدور کے ادوار میں۔ 1985ع تا 1989ع امریکا کے محکمہ خارجہ میں، 1991ع تا 1992ع امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں۔ ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن کے دور میں 1993ع تا 1999ع وہ انتہاپسند اسرائیل نواز رینڈ کارپوریشن سے وابستہ رہے۔

زلمی خلیل زاداور پراجیکٹ فار نیو امریکن سینچری

اور اسی دوران کیمبرج انرجی ریسرچ ایسوسی ایٹس کی طرف سے کنسلٹنٹ برائے یونوکال انرجی کمپنی رہے۔ انکا ذاتی کاروبار بھی ہے۔ زلمی خلیل زاد پراجیکٹ فار نیو امریکن سینچری پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔

انتہاپسند امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن سے خلیل زاد ماضی میں وابستہ رہے جبکہ انکی بیوی چیرل بینارڈ مسلمانوں میں اسرائیل اور امریکا کی مرضی کے نئے مسلمان گروہ اور نظریات کے پراجیکٹ پررینڈ کارپوریشن کے لئے اپنے نظریات لکھتیں رہیں ہیں۔

اسی تسلسل میں اہم ترین نکتہ یہ بھی کہ خلیل زاد سال 2001ع میں افغان فاؤنڈیشن کے بورڈ رکن تھے اور تب انہیں امریکی قومی سلامتی کاؤنسل میں سینئر ڈائریکٹر کے عہدے پر مقرر کیا گیا۔ وہاں جنوب مغربی ایشیاء، خلیج اور اسلامی دنیا سے متعلق امور انکے زیر نظر تھے۔ بش جونیئر دورصدارت میں خلیل زاد افغانستان اور عراق دونوں ممالک میں امریکا کے سفیر رہ چکے ہیں۔

یعنی سال 2003ع تا2005ع افغانستان میں امریکی سفیر۔ وہیں سے امریکا نے انکا تبادلہ کرکے عراق میں سفیر مقرر کردیا۔ سال 2007ع تک عراق میں امریکی سفیر رہنے کے بعد اقوام متحدہ میں امریکا کی نمائندگی کی۔ باراک اوبامہ نے جب افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں کمی کا اعلان کیا تو زلمی خلیل زاد نے مخالفت کی۔

جب صدرڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی افواج کی تعدادمیں اضافے و قیام میں توسیع کی بات کی تو زلمی خلیل زاد نے حمایت کی۔

 

فرانسیسی محقق تھیئری میسان نے اپنی تحقیقاتی کاوش نائن الیون دی بگ لائی میں لکھا کہ جب افغانستان میں طالبان حکومت کیا کرتے تھے تب انکی حمایت میں خلیل زاد کا مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں شایع بھی ہوا۔

یعنی یہ ایک آدمی ایک طویل عرصے سے امریکا نے مامور کررکھا ہے۔

طالبان کمانڈر ملا عبدالغنی برادر

دوسری جانب طالبان کمانڈر ملا عبدالغنی برادرکا ماضی ملاحظہ کریں۔ یہ ملا عمر کی افغان طالبان کے شریک بانیان میں سے ایک ہے۔ فروری 2010ع میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے مشترکہ آپریشن میں اسے گرفتار کرلیا تھا۔

البتہ مشہور صحافی و مصنف احمد رشید نے عبدالغنی برادر کی کراچی میں گرفتاری سے متعلق بہت اہم انکشاف اپنی تصنیف بعنوان ”پاکستان اون دی برنک“ میں کیا ہے۔

عبدالغنی برادر سی آئی اے سے پچاس لاکھ ڈالر رشوت

انکے مطابق اعلیٰ فوجی افسر نے بتایا کہ اس گرفتاری کا مقصد امریکیوں کو خوش کرنا ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ اسکا سبب یہ تھا کہ ملا عبدالغنی برادر نے بالا ہی بالا خفیہ طور پر امریکی سی آئی اے سے پچاس لاکھ ڈالر رشوت وصول کی تھی۔

پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے سیکیورٹی ادارے کو اعتماد میں لئے بغیر عبدالغنی برادر امریکی سی آئی اے سے پچاس لاکھ ڈالر لے چکے تھے۔ یعنی وہ امریکا کے پے رول پر ہی تھے۔ اور فروری 2018ع میں انہیں امریکا کے کہنے پر ہی آزاد کیا گیا تھا۔

امریکا پر حکمرانی کرنے والی زایونسٹ لابی اور بڑی بڑی کمپنیاں اور خاص طور پر انرجی سیکٹر کی کمپنیاں اور سرمایہ دار افغانستان اور عراق کے قدرتی ذخائر پر للچائی ہوئی نظر رکھتے آئے ہیں۔ اور افغانستان کی تازہ ترین صورتحال بھی ماضی سے مختلف نہیں۔

امریکی و دیگر غیرملکی اتحادی افواج اٹھارہ برس سے افغانستان میں موجود ہیں۔ مگر نہ تو امن قائم ہوسکا ہے۔ نہ ہی جمہوریت مضبوط ہے۔

امریکا اور طالبان کا فکسڈ میچ

صاف ظاہر ہے کہ ہدف فوجی موجودگی کے ذریعے کمزور حکومت کو بلیک میل کرکے رکھنا ہے۔ طالبان کو اس لئے باقی رکھا ہے تاکہ افغان حکومت کو بلیک میل کیا جاسکے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ دوحہ میں دستخط کرنے والے دونوں افراد امریکی ہی تھے۔ خلیل زاد تو خیر امریکی شہری بھی ہے مگر ملا بردار بھی سی آئی اے سے پچاس لاکھ ڈالر لے کر امریکا کا نمکخوار بن چکا ہے۔ امریکا اور طالبان کا یہ فکسڈ میچ طویل عرصے سے جاری ہے۔ خدا افغانستان پر رحم فرمائے۔!۔

 

ایم ایس مہدی برائے شیعت نیوز اسپیشل

Will Pakistan regime support Turkey against Saudi Arabia and UAE

پاکستان اور خطے کی غیر یقینی صورتحال (پہلی قسط)

پاکستان اور خطے کی غیر یقینی صورتحال (دوسری قسط)

پاکستان اور خطے کی غیر یقینی صورتحال (تیسری قسط)

متعلقہ مضامین

Back to top button