خواب غفلت سے بیداری کا سنہری موقع
حاج قاسم سلیمانی و حاج ابومھدی مھندس کی شہادتیں ایک عالمگیر تحرک و فعالیت برپا کرچکیں ہیں۔ کیا مجھ جیسے نالائق اس عالمی تحریک کا ایک جزہیں یا پھر!؟ یہ ایک سنہری موقع ہے۔

خواب غفلت سے بیداری کا سنہری موقع
تحریر : غلام حسین
خواب غفلت سے بیداری کا سنہری موقع
جب یہ سطور لکھی جارہیں ہیں تو عشاق کا ایک طبقہ آج نیند سے جلدی بیدار ہوچکا ہوگا۔ کیونکہ انہیں نشتر پارک کراچی اور پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں اپنے عظیم شہداء کو خراج عقید ت و تحسین پیش کرنے کی جلدی ہے۔ جب یہ سطور لکھیں جارہیں ہیں تو شہدائے مقاومت اسلامی کے چہلم کے عظیم الشان اجتماعات کے برپا ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں۔
شہادتوں کا ایک پیغام
حاج قاسم سلیمانی اور حاج ابو مھدی مھندس اور دیگر شہدائے مقاومت اسلامی کا چہلم ماہ فروری میں آیا ہے۔ مجھ جیسے نالائقو ں کو تو ویسے ہی بیدار ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ ولایت مہدوی کا عظیم پیروکار مظفر کرمانی مجھ جیسوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے5فروری 2001ع کو نذیر عباس کے ساتھ جام شہادت نوش کرکے آسمانی ہوچکا تھا۔
تب غفلت کی نیند سے بیدار نہ ہونے والے مجھ جیسوں کے لئے 12فروری 2008ع بھی آیا تھا۔ کیا ولایت علوی، فاطمی و مھدوی کے پیروکار ایک مالک اشتر صفت فرزند حاج رضوان عماد مغنیہ کی شہادت ہمیں جگاسکی۔
مانا کہ علامہ عارف حسینی سے لے کر ڈاکٹر محمدعلی نقوی و مظفرکرمانی سے سبط جعفر و علامہ آفتاب حیدر جعفری و سعید حیدر زیدی تک یہ شہادتیں اپنے اندر مختلف پیغامات رکھتیں تھیں۔ یقینا اسکے بہت سارے پہلو تھے۔ اور بعض حوالوں سے ان شہداء کا محاذبھی مختلف تھا مگر ان ساری شہادتوں کا ایک پیغام ہمارے لئے تھا۔
سرور وسالار شہیدان ابا عبداللہ الحسین ع کے حرم مطھر پر لہراتا ہوا سرخ پرچم
وہ جو ڈاکٹر علی شریعتی نے لکھا تھا کہ سرور وسالار شہیدان ابا عبداللہ الحسین ع کے حرم مطھر پر لہراتا ہوا سرخ پرچم یہ کہہ رہا ہے کہ جنگ ختم نہیں ہوئی۔ یہ سرخ شہادتیں اس لئے ہوئیں کہ مدافع ولایت جناب سیدہ فاطمہ زہرا س کے بیٹوں کو یاد رہے کہ یہ دنیا ایک صاحب رکھتی ہے۔ وہ صاحب الزمان عدل کا حاکم ہے۔
دنیا اور دنیا کے ستم دیدہ و مستضعف انسان ہزاروں برسوں کے ظلم و ستم و محرومیوں سے نجات کے لئے اللہ کے اس ولی اعظم کے منتظر ہیں۔ اور ممکن ہے کہ یہ مشیت الہی ہو کہ عظیم انسانوں کی برسی اور چہلم کو ایک اس طرح ایک ساتھ لایا جائے کہ غافل انسان متوجہ ہوجائیں۔ غفلت ختم ہوجائے۔
سال 1989ع میں علامہ عارف حسینی شہید کا چہلم اور امام خمینی کی برسی کے اجتماعات (مشترکہ ایک ہی دن) اس سرزمین شہداء میں ہوئے۔ آج جو نوجوان ہیں وہ یہ یاد رکھیں کہ یہ اس دن کا نور تھا جو آج تک پاکستان میں کسی نہ کسی صورت ضوفشاں رہا۔
اور درمیانی عرصے میں اسی فکر کے وارثوں کو اس شمع ولایت کو روشن رکھنے کیلئے اپنے خون کا ایندھن دینا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آندھیوں کو تھمنے پر مجبور کردیا جاتا کہ ایسے عظیم انسانوں کو خون کا ایندھن نہ دینا پڑتا۔
سال 2020ع ہر حوالے سے اہمیت کا حامل
بہر حال سال 2020ع ہر حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال کا آغاز عالمی سطح کی ہستیوں کی شہادتوں سے ہونے کا مطلب واضح ہے۔ یعنی یہ مقدس خون عالمگیر اثرات کا حامل ہے۔ اس پر بعد میں کبھی بات ہوگی۔ آج صرف خواب غفلت سے بیداری پر توجہ رکھیں۔
علامہ عارف حسینی سے لے کر حاج مظفر کرمانی تک محمدعلی رجائی و سید بہشتی، عباس موسوی و راغب حرب تا حاج عماد مغنیہ، مصطفی چمران تا حاج قاسم سلیمانی، باقر الصدر تا باقر الحکیم و ابو مھدی مھندس، ان بڑی بڑی شہادتوں میں سبھی کے لئے سبق ہیں۔ بلکہ عبرتیں ہیں۔
جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مادرانہ نورانی دعا
سبق یہ ہے کہ یہ عظیم شہید منفرد صفات کے حامل ہیں۔ یہ مستضعفین کے اپنے تھے۔ یہ ان جیسے تھے۔ یہ مظلوموں کے دکھ درد میں انہی کی اپنوں جیسے شریک تھے۔ انکا توکل اللہ تبارک و تعالیٰ تھا۔ انکو اللہ کی طاقت پر غیر متزلزل ایمان تھا۔ انہیں یقین کامل تھا کہ جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مادرانہ نورانی دعا ان پر سایہ فگن ہے۔
اخلاص۔ ذمے داری کا احساس۔ سادہ زیستی۔ وقت کا درست استعمال اور وقت کا ضایع نہ کرنا۔ توجہ۔ جاگ جاؤ دوستو۔ خدار اجاگ جاؤ۔ وقت کم۔ مقابل سخت۔ نسلوں کی نسلیں گذر چکیں۔ دنیا ظلم و ستم سے بھردی گئی ہے۔ کب تک شہداء کا مہدی صاحب الزمان عج ہماری غفلت کیوجہ سے پردہ غیب میں نوحہ کناں رہے!؟ کب تلک جنت البقیع کی چار قبروں کی یہ مظلومیت!؟ کب تلک، آخر کب تلک!؟ ضایع کرنے کے لئے اب کچھ نہیں بچا۔
عبرتیں یہ ہیں کہ خواص کی اکثریت ان جیسی صفات کی حامل نہیں۔ یعنی یہ لوگ خالص و مخلص و سادہ زیست ہیں ہی نہیں۔
یہ ایک سنہری موقع ہے
حاج قاسم سلیمانی و حاج ابومھدی مھندس کی شہادتیں ایک عالمگیر تحرک و فعالیت برپا کرچکیں ہیں۔ کیا مجھ جیسے نالائق اس عالمی تحریک کا ایک جزہیں یا پھر!؟ یہ ایک سنہری موقع ہے۔ جو محرم و صفر کی عزاداری سے نہیں جاگ سکا۔ جو زیارات مقامات مقدسہ، حج و عمرہ و دعاؤں سے بھی نہیں جاگ سکا۔ جو ماہ رمضان کی خاص عبادتوں سے ہمہ گیر نورانیت لینے میں ناکام رہا۔ آج اسکے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ سنہر ی موقع عطا کیا ہے۔
جیسے علامہ عارف حسینی کے چہلم سے مردہ معاشرے میں تحرک پیدا ہوا۔ آج کی نوجوان نسل کے لئے یہ سال 1989ع کا ری ان ایکٹمنٹ بن کرآیا ہے۔ آج کا کراچی اور اسلام آباد کا یہ اجتماع 1994ع کا مینار پاکستان لاہور کے اجتماع کا اپ ڈیٹڈورژن ہے۔ یقینا آج کے نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، یہ امید کی کرن ہیں۔ انکو اپنے گھروں، گلیوں، محلوں اور معاشروں میں رول ماڈل درکار ہیں۔ کیا بزرگان متوجہ ہیں!؟
غلام حسین برائے شیعت نیوز اسپیشل