مقالہ جات

وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کا استعفیٰ کیا عراق کا مسئلہ حل ہوگیا۔۔۔۔۔؟

عراق کے مذہبی و سیاسی رہنما مقتدی الصدر نے اس استعفی کو عراقی عوام کی انقلابی جدوجہد کا پہلا نتیجہ سے تعبیر کیا ہے

شیعت نیوز: عراقی وزیر اعظم عادل عبد المہدی کے استعفیٰ کے بعد اب کیا عراق کے مسائل حل ہونگے ؟آج جمعہ 29نومبر کوعراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کا بیان سامنے آیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے استعفی پیش کرینگے گے تاکہ ارکان پارلیمنٹ ایک نئی حکومت کا انتخاب کرسکیں یہ فیصلہ عراقی شیعوں کے لئے مرجع اعلی و مذہبی قیادت آیت اللہ سیستانی کی جانب سے سیاسی قیادت کی تبدیلی کے مطالبے کے جواب میں آیا ہے۔اس سے قبل جمعہ کے خطبے میں پڑھے جانے والے آیت اللہ سیستانی کے بیان میں حکومت کے مستعفی ہونے اور بروقت نئے انتخابات کی جانب دعوت دی گئی تھی اور اسے ہی ایک مناسب حل کے طور پر بیان کیا گیا تھا ۔

اس بیان میں آیا ہے کہ ’’مرجعیت عراقی مہربان قوم کے لئے ایک اتھارٹی کی حثیت کے طور پر ہمیشہ رہے گی اور ان کا کردارعوام کے مفاد میں نصیحت آموز رہنمائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ،اور یہ عوام پر ہے کہ وہ اپنی پسند کا انتخاب خود کریں ،اور یہی چیز بغیر کسی کے ڈکٹیشن کے موجودہ صورتحال اور مستقبل کے لئے بہترہوگی ‘‘تو کیا وزیر اعظم کا استعفی ہی دو ماہ سے عراق میں جاری بحران کا حل تھا؟عادل عبدالمہدی عراقی سیاسی عمل کا شروع سے ساتھ رہے ہیں اور ماضی کے تمام وزیراعظموں میں سب سے بہتر فرد سمجھے جاتے ہیں کہ داخلہ اور خارجہ پالیسی سے لیکر مختلف سیاسی دھڑوں کو اکھٹا رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: آیت اللہ سیستانی کا کونسا ایسا پیغام تھا کہ جس کو سننے کے بعد عراقی وزیر اعظم نے فورا اپنا استعفی پیش کر دیا

ان کے سامنے سب سے بڑا چلینج کرپشن کا خاتمہ تھا جس کے لئے وہ انتہائی باریکی سے مگر آہستہ قدم بڑھارہے تھے ۔ان کے دور میں ہمسائیہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات کی سطح انتہائی مثالی دیکھائی دیتی تھی جبکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی ان کا برتاو دوطرفہ احترام اور عدم مداخلت کی بنیاد پر رہا ۔ان پر بعض سیاسی و مذہبی حلقے ایران نواز وزیراعظم کا الزام بھی لگاتے رے ہیں جس کی بنیادی وجہ مزاحمتی بلاک کولیکر انکی دوٹوک پالیسی ہے ۔عراقی عوام کرپٹ نظام اور اس سے جڑے تمام افراد کو نہ صرف اقتدار سے دور دیکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں بلکہ وہ ان کا احتساب بھی چاہتے ہیں عراق کی عوام کااس وقت مقبول نعروں میں سے ایک قلع و شلع کللکم حرامیہ ہے یعنی سارے کرپٹ افراد کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دو ۔

عراق کے مذہبی و سیاسی رہنما مقتدی الصدر نے اس استعفی کو عراقی عوام کی انقلابی جدوجہد کا پہلا نتیجہ سے تعبیر کیا ہے جبکہ ان کے ممبران پارلیمان سائرون نے پارلیمنٹ کو فوری منحل کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ عمار حکیم کا کہنا ہے کہ پارلیمان کو فوری اجلاس بلاکر آیت اللہ سیستانی کے مطالبات پر عمل درآمد کرنا چاہیے ۔اسی اثنا میں دیگر عراقی سیاسی رہنماووں کی جانب سے بھی نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا دیکھائی دے رہا ہے ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس استعفیٰ کے بعد عراق کے طویل سیاسی بحران میں جاگر سکتا ہے جس کامطلب یہ ہوگا کہ امن و امان کی صورتحال بھی مخدوش ہی رہے گی اور عوام سڑکوں سے واپس نہیں جائے گی ۔ایسی صورتحال ہمیں اس وقت الجزائر میںانتخابات کے بعد دیکھائی دے رہی ہے کہ جہاں عوام کا خیال ہے کہ بوتیلفہ کے جانے کے بعد عوامی نمایندوں کے بجائے کرپٹ افراد نے واپس اقتدار کو سنبھال لیا ہے ۔دوسری جانب یہ افوائیں بھی گرم ہیں کہ شام اور عراق ہی کے بعض حصوں میں دہشتگرد گروہ داعش پھر سے خود کو نئی جہت دینے کی تگ دو میں دیکھائی دیتا ہے یہ بھی خبریں ہیں کہ بعض عراقی علاقوں میں کچھ مخصوص گروہ ملیشیا بنانے کی کوشش میں ہیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button