مقالہ جات

یمنی مزاحمت کا ایک اور جوابی وار

یمنی فورسز کی عوامی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ مزاحمت کے لیے مزید ہموار ہوئی ہے

شیعت نیوز: یمنی مزاحمتی فورسز نے ایک بار پھر سعودی عرب کی تیل کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ کہا جارہا ہے سعودی دارالحکومت ریاض سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تیل کی دو اہم تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملے سے اس دفعہ بہت زیادہ نققصان ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس نقصان کیوجہ سے اگلے چند دن میں سعودی عرب کی تیل کی مصنوعات کی پیداوار نصف رہ جائے گی۔ جس سے عالمی منڈی میں تیل کی مصنوعات کی قیمتیں بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

سعودی عرب یمن جنگ شروع کر کے ایک خطرناک بندگلی میں پھنس چکا ہے۔ یمنی فورسز آئے روز سعودی عرب کی خاک میں داخل ہوکر سعودیہ کی اہم معاشی خصوصا توانائی کی تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ اس دوران ہمارے سابق سپہ سالار کی قیادت میں بنی اتحادی فوج کار آمد ثابت ہو رہی ہے نہ دنیا سے خریدا گیا جدید ترین دفاعی نظام مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ یہ جہاں سعودیہ کے لیے پریشانی کی بات ہے وہیں اسلحہ کے بین الاقوامی تاجروں اور پروڈیوسروں کے لیے بھی باعث حیرت ہے کہ ان کے جدید ترین دفاعی نظام سعودیہ جاکر ناکام کیوں ہو جاتے ہیں اور یمنی مزاحمتی فورسز ہزار کلومیٹر سعودی خاک کے اندر جاکر سعودی دارالحکومت سے صرف سو کلومیٹر کے فاصلے پر قائم دنیا کی اہم ترین تنصیبات کو کامیابی کے ساتھ نشانہ کیسے بنا لیتی ہیں؟۔

یہ بھی پڑھیں: قاضی شریح کے متعلق چند حقائق

اس سوال کا جواب ہمارے سابق سپہ سالار شاید بہتر دے سکیں لیکن بین الاقوامی ماہرین اس بارے دو احتمال دے رہے ہیں ایک یہ کہ اسلحہ اور دفاعی نظام بیچنے والوں نے سعودی عرب کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور انہیں ناکارہ اسلحہ اور دفاعی نظام دیا ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ سعودی عرب کے اندر خصوصا سعودی سیاسی اور سیکورٹی مراکز میں ایک بڑا فارورڈ بلاک وجود میں آچکا ہے جو سعودیہ کی دفاعی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لانے دیتا اور یمنی فورسز سعودیہ کے اندر آسانی سے اپنے ٹارگٹس کو نشانہ بنا لیتی ہیں۔ ان میں سے جو احتمال بھی درست مان لیا جائے ایک بات واضح ہے کہ سعودیہ یمن پر ناجائز حملہ کرکے کہ ایک غیر متوقع اور سخت جنگ میں بھنس چکا ہے جہاں سے "نہ پای رفتن دارد نہ تاب ماندن”.

عرب امارات یمن جنگ میں سعودیہ کا پارٹنر تھا لیکن دو بار اماراتی بندرگاہوں اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنتے دیکھ کر امارات نے خود کو اس جنگ سے تقریباً جدا کر لیا ہے۔ کیونکہ یہ بات ایک عام انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ کانچ کا گھر بنا کر دوسروں کو پتھر نہیں مارے جاسکتے۔ ماہرین کے مطابق اگر امارات مزید اس جنگ میں رہتا تو یمنی فورسز کے کسی بھی حملے کی صورت میں سب سے پہلے بین الاقوامی سرمایہ کار امارات چھوڑ کر بھاگتا اور یہ امارات کے زوال کے لیے کافی تھا۔ امارات یمن میں ایک محدود نیابتی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اماراتی حمایت یافتہ گروہوں کا ہدف زیادہ تر سعودی حمایت یافتہ گروہ ہیں یعنی کل کے اتحادی اب یمن میں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

بین الاقوامی آبی گذرگاہوں پر تسلط حاصل کرنے کے لیے فقر زدہ ملک یمن پر حملہ آور ہونے والی دو عرب طاقتوں کو آج چند سال بعد اپنی ملکی تنصیبات بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں مستضعفین کے غلبے کے الہی وعدے کی نشانیاں یمن جنگ میں واضح نظر آتی ہیں۔ ایک ہفتے میں یمن کی مزاحمت کو شکست دینے اور سعودی و اماراتی پٹھو منصور ہادی کی حکومت کو ری سٹور کرنے کے دعوے کرنے والے آج اپنے گھر میں بھی نا امن ہوئے بیٹھے ہیں اور یمنی مزاحمت یمن کے بیشتر اہم علاقوں پر نہ فقط کنٹرول رکھتی بلکہ یمنی عوام کو صحت، تعلیم اور دیگر ممکنہ ضروری سہولیات پہنچانے کے لیے سرگرم عمل بھی ہے۔یمنی مزاحمتی فورسز کے شدید جوابی حملوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یمن جنگ میں یمنی مزاحمتی فورسز کی طاقت کم ہونے کی بجائے بڑھی ہے۔

یمنی فورسز کی عوامی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ مزاحمت کے لیے مزید ہموار ہوئی ہے۔ مزاحمتی طاقتوں کی مادی طاقت کے ساتھ ساتھ ایمان کی طاقت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ خطے میں مزاحمتی بلاک نہ فقط تشکیل پاچکا بلکہ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ خطے کے بارے کوئی بھی فیصلہ اب مزاحمتی بلاک کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔مزاحمتی بلاک کی تشکیل اور کامیابیوں میں انقلاب اسلامی ایران کی فکر اور عملی مدد کا بڑا عمل دخل ہے اور ایران کا انقلاب شیعی مکتب فکر سے برآمدہ ہے لہذا شیعی مکتب فکر نے خطے میں ایک بڑا مزاحمتی بلاک کھڑا کردیا ہے۔ کوئی اسے فرقہ واریت سے تو کوئی ایرانی مداخلت سے تعبیر کرے گا لیکن یہ حقیقت ہے اور بہت جلد سب پر عیاں بھی ہو جائے گی کہ اس میں فرقہ واریت ہے نہ کسی قسم کی بے جا مداخلت بلکہ یہ خالصتاً مزاحمتی فکر سے ماخوذ ہے اور یہ فکر ماسوائے مکتب کربلا کسی مکتب کے پاس ہے نہ وہ ایسی کوئی موومنٹ ایجاد کرسکتے ہیں۔ یعنی جہاں آپ نہتے ہوں، پا برہنہ ہوں، دشمن آپ کی جان، مال اور ناموس پر حملہ آور ہو، آپ کے سامنے صرف دو راستے ہوں ذلت سے ظالم کے سامنے تسلیم ہوجانا یا عزت کے ساتھ قتل ہوجانا۔ یمنیوں نے عزت کے ساتھ قتل ہونے کو ذلت کے ساتھ مرنے پر ترجیح دی۔

یہ بھی پڑھیں:کربلا اور ہمارا نصاب

اسی فکر نے مزاحمتی بلاک کو تشکیل دیا ہے۔موجودہ صورتحال کے بعد اگلا سناریو کیا ہو گا؟ بی فور گروپ (بن سلمان، بنیامین، بن زائد اور بولٹن) کی انتہا پسندانہ فکر بولٹن کی ذلت آمیز چھٹی اور بن زائد کے بیک فٹ پر چلے جانے سے اپنی موت آپ مرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگرچہ امریکہ میں کچھ دانشور امریکی انتظامیہ کو ایرانی تنصیبات پر حملے یعنی محدود جنگ کا مشورہ دے رہے اور دوسری طرف اسرائیل خطے کی مزاحمت کو جنگ پر اکسا رہا ہے لیکن امید ہے ایرانیوں کے دفاعی اقدامات خصوصا امریکی ڈرون گرائے جانے اور مزاحمت کی جانب سے اسرائیل کو دندان شکن جواب کے بعد کسی بھی محدود یا وسیع جنگ کے آپشن کی طرف بڑھنے سے پہلے امریکہ اور اس کے اتحادی سو بار سوچیں گے۔
میری رائے میں مزاحمتی بلاک کے موجودہ دفاعی اقدامات خطے کو کسی بڑی جنگ کے خطرے سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ بات بیک ڈور اور پھر اعلانیہ مذاکرات پر آن رکے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر نزاع کا منظقی حل صرف مذاکرات ہیں لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ مذاکرات حملہ آور کی شکست کی علامت ہوتے ہیں۔ یمن جنگ میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی عبرت ناک شکست یقینی ہے۔ اگر کسی کو یاد ہو تو بن سلمان نے کہا تھا میں امام مہدی ع کے ظہور کی تیاری کرنے والوں سے لڑنے کی تیاری کررہا ہوں اور جواب میں کسی نے کہا تھا جس امام مہدی ع کے ظہور کی تیاری سے تم خائف ہو اس نے بیت اللہ الحرام کی چھت پر اعلان امامت کرنا ہے صنعا، بغداد، تہران، دمشق یا بیروت میں نہیں اور پھر اگر کسی نے چند دن پہلے انصار اللہ کے سربراہ کی تقریر سنی ہو تو انہوں نے کہا تھا سعودیہ کے اندر موجود حریت پسند گروہ ہمیں مدد فراہم کرتے ہیں یعنی جن سربازان امام مہدی ع سے بن سلمان لڑنے نکلا تھا وہ تو سعودیہ کے اندر تیار ہو رہے اور عین ممکن ہے سعودی قصر نشینوں کے ہم نشین بھی ہوںاور اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر سید ابن حسن (تہران)

متعلقہ مضامین

Back to top button