اہم ترین خبریںپاکستانشیعت نیوز اسپیشل

مسئلہ کشمیر اور ایران سے شکایات!

افسوس ہے کہ ایک ملک یعنی ایران کی قیادت، ریاست، حکومت، عوام، فوج سب کے سب کشمیریوں کے حق میں کھل کر بھارت کے خلاف میدان میں ہیں تب بھی ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں گرمجوشی دکھائی نہیں دیتی اور جو ممالک سانحہ پانچ اگست کے بعد بھی بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ بد بخت سعودیہ،امارات، بحرین پاکستان میں نیک نام ہیں!! حیف ہے اس دہرے معیار اور بے ضمیری پر

تحریر : عین علی شیعت نیوز اسپیشل : مسئلہ کشمیر پر ایران کی پالیسی یوں تو بہت پہلے سے واضح ہے لیکن پانچ اگست 2019ع کے بعد سے ایران نے اس تبدیل شدہ صورتحال پر جو موقف اپنا یا ہے، جو ردعمل ظاہر کیا ہے، بدقسمتی سے وہ درست طور دنیا تک پہنچ نہیں پائے۔ بھارت کی موذی حکومت نے فریب دہندہ آئینی شق 370 منسوخ کرکے کشمیر کی خاص حیثیت ختم کرکے براہ راست قبضہ کرلیا۔

کشمیریوں اور پاکستانی قوم کا فوری رد عمل فطری تھا جو توقع کے عین مطابق ظاہر ہوا۔ لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ پاکستان کے بعد اگر اس بھری پری دنیا میں کوئی مظلوم کشمیریوں کے حق میں کھڑا ہوا تو وہ ایران ہے۔

حق تو یہ ہے کہ ہمیں ایرانی ریاست، حکومت اور قوم کے ان جذبات کی قدر کر نی چاہیے، شکرکرنا چاہیے کہ وہ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یقینامظلوم کشمیری اور انکی جائز جدوجہد کے حامی پاکستانی سب سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ ولایت فقیہ، مرجعیت، ایرانی ریاست و حکومت، فوج اور قوم، یہ سب سانحہ پانچ اگست کے بعد سے کشمیر کے لئے کیا کررہے ہیں؟!

یہ تحریر انہی سوالات کے جواب پر مبنی ہے۔ البتہ عقل یہ کہتی ہے کہ سوال تو متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بحرین جیسے ممالک سے کیا جانا چاہیے

جو سانحہ پانچ اگست کے بعد کھل کر بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ (اس پر کسی اور وقت رائے تحریر کریں گے)۔

ایران میں نماز جمعہ کا اجتماع انقلاب اسلامی کے نظریات کا ترجمان ہوتا ہے اورتہران میں نماز جمعہ کے اصل پیش امام ولی فقیہ رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای ہیں اور باقی سینیئر انقلابی علماء جو تہران نماز جمعہ کے پیش نماز ہیں وہ انکے قائم مقام ہوتے ہیں۔

اسی طرح عید ین کی نمازوں کے اجتماعات بھی اہم ہوتے ہیں۔

ایرانی نظام کے مطابق دین و سیاست یکجا ہیں، ان میں کوئی جدائی نہیں۔

اس لئے نمازجمعہ و عیدین یا دعائے ندبہ کے اجتماعات وغیرہ کو وہاں سیاسی نقطہ نظر سے بھی اہمیت حاصل ہے۔

اس تناظر میں اگر جائزہ لیں تو سانحہ پانچ اگست 2019ع کے بعد تہران میں نماز جمعہ کا جو مرکزی اجتماع ہوا، اس میں آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی نے بھارت کی موذی حکومت پر شدید تنقید کی اور مظلوم کشمیریوں کے حق میں تقریر کی۔

انہوں نے بھارتی حکومت کے لئے جو الفاظ استعمال کئے وہ یہ تھے کہ بہ دولت ھندوستان ھشدار می دھیم۔۔۔۔اب جنہیں فارسی آتی ہے وہ خود ہی ترجمہ کرلیں کہ اس بزرگ انقلابی شیعہ اسلامی عالم دین نے کس لب و لہجے میں یہ بات کہی ہے!

برصغیر میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ محترم آیت اللہ موحدی کرمانی شہیدجواد باھنر جیسے مشہور انقلابی عالم دین کے ساتھیوں میں سے تھے

اور شاہ ایران کے دور میں انقلابی جدوجہد کی وجہ سے ساواک نے انہیں بھی وقید و بند اور تشددکا نشانہ بنایا تھا۔

اسی طرح نماز عید الاضحی کے اجتماع میں حجت الاسلام سید ابوترابی فرد نے تہران میں بھارتی حکومت کو تنبیہ کی کہ کشمیری مسلمان، امت اسلامی کا حصہ ہیں اور انکے خلاف اٹھایا جانے والا ہر قدم امت اسلامی کے خلاف قدم تصور کیا جائے گا۔

انہوں نے فارسی زبان میں جو کچھ کہا اسکا مفہوم اپنے معاشرے کے لحاظ سے سمجھنا چاہیں تو انہوں نے بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ باز آجائے، ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے یا معاملہ پوائنٹ آف ریٹرن پر پہنچ جائے۔

ایران کا یہ مرکزی اجتماع تہران میں ہوتا ہے، اس لیے اسی پر اکتفا کرتے ہیں ورنہ پورے ایران میں نماز جمعہ کے اجتماعات میں مظلوم کشمیریوں کے حق میں تقاریر کی گئیں۔

یاد رکھنے کی بات ہے کہ مکہ مکرمہ میں حج کے عالمگیر اسلامی اجتماع میں بھارت کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا گیا۔

مظلوم کشمیریوں کے حق میں کعبہ کے پیش امام نے ایک جملہ بھی نہیں کہا۔

اور تو اور پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری ذرایع ابلاغ بھی ایران کے اس بہترین کردار کی کوریج کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے وزیر اعظم عمران خان کو فون کرکے کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا لیکن پاکستانی میڈیا میں یوں ظاہر کیا گیا گویا فون عمران خان نے کیا تھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور انکے ایرانی ہم منصب ڈاکٹر علی لاریجانی کی ٹیلیفونک گفتگو ہوئی جس میں لاریجانی صاحب نے نہ صرف ایرانی پارلیمنٹ کا بلکہ رہبر معظم انقلاب اسلا می آیت اللہ خامنہ ای صاحب کی کشمیر پالیسی سے بھی آگاہ کیا۔

ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد حسین باقری اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایک دوسرے سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔

ایران کے مقدس شہر قم میں شیعہ اسلامی دنیا کے ممتاز فقہاء و مراجعین تقلید جو شہریت کے لحاظ سے بھی ایرانی ہی ہیں، انہوں نے بھی کھل کر مظلوم کشمیریوں کے حق میں بیانات جاری کئے ہیں۔

آیت اللہ نوری ھمدانی اور آیت اللہ صافی گلپائیگانی نے تاریخی بیانات دیئے ہیں۔

انہوں نے انٹرنیشنل کمیونٹی اور خاص طور پر مسلمان حکمرانوں کی بھارت کے مظالم پر مجرمانہ خاموشی پر بھی شدید تنقید کی ہے اور بھارت کی موذی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر کشمیری مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ ختم کرے۔

یہی نہیں بلکہ تہران دنیا کا وہ واحد اسلا می دارالحکومت تھا جہاں بھارتی سفارتخانے کے باہر ایرانی طلباء و طالبات نے مظاہرہ کرکے احتجاج ریکارڈ کروایا۔

کشمیریوں کے حمایت میں تہران میں بھارتی ایمبیسی کے سامنے احتجاج

تہران میں زیر تعلیم کشمیری و پاکستان طلباء و طالبات نے بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کیا۔

یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین سمیت وہ سارے جنہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنا بھائی، پیر مرشد، آقا، دوست یعنی سب کچھ مانتی ہے،

وہاں کشمیریوں کی نسل کشی کے خلاف، بھارتی مظالم کے خلاف کوئی ایک آواز اٹھی؟!

الٹا بحرین نے پاکستانی اور بنگلہ دیشی مظاہرین کو گرفتار کرلیا اور اب ان پر مقدمہ چلے گا۔

افسوس ہے کہ ایک ملک یعنی ایران کی قیادت، ریاست، حکومت، عوام، فوج سب کے سب کشمیریوں کے حق میں کھل کر بھارت کے خلاف میدان میں ہیں

تب بھی ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں گرمجوشی دکھائی نہیں دیتی

اور جو ممالک سانحہ پانچ اگست کے بعد بھی بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں،

وہ بد بخت سعودیہ،امارات، بحرین پاکستان میں نیک نام ہیں!!

حیف ہے اس دہرے معیار اور بے ضمیری پر!!

متعلقہ مضامین

Back to top button