اہم ترین خبریںپاکستانشیعت نیوز اسپیشل

کشمیر میں بھارت کی نئی جارحیت، ایک اپ ڈیٹ

تحریر: غلام حسین ، شیعت نیوز اسپیشل

ٍ بھارت نے کشمیر پر قبضے کے سات عشروں پرانے ایجنڈا پر بالآخر کھل کرعمل کرناشروع کردیا ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کا بھارت سے الحاق کا معاہدہ اس ایجنڈا کا پہلا قدم تھا جبکہ شیخ عبداللہ کا پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مل جل کر آرٹیکل 370کے تحت کشمیر کو بھارتی آئین میں بظاہر ایک خاص اور منفرد مقام دلواکر الحاق کو جاری رکھنا دوسرا قدم تھا۔ تاریخ کے صفحات پر یہ حقیت آج بھی اپنا وجود رکھتی ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی یہ خاص حیثیت یا اسپیشل اسٹیٹس ختم ہوجائے گا اور یہ بھی دیگر ریاستوں (یعنی صوبوں) کی مانند بھارت کا اٹوٹ انگ بن جائے گا۔ وزیر اعظم نریندرا مودی کی وزارت عظمیٰ کے تحت بی جے پی و اتحادیوں کی حکومت کے دور میں وہ تیسرا اور فیصلہ کن قدم بھارت نے آخر کار اٹھا ہی لیا ہے۔

جس طرح دھونس اور دھاندلی سے بھارت نے وادی کشمیر اور ملحقہ علاقوں پرقبضہ کیا تھااور اسے قانونی و آئینی شکل دینے کی ایک کوشش کی تھی، اس مرتبہ ایک اور مرتبہ غیر قانونی و غیر آئینی طریقے سے اسی آئینی شکل والے قبضے کے تحت جو فریب دنیا کو دیا گیا تھا، اب اس آئینی شق کو ہی ختم کردیا ہے۔ اور وہ بھی صدارتی حکمنامہ جاری کرکے جبکہ یہ شق بھارت یکطرفہ طور پر منسوخ نہ کرنے کا پابند ہے۔

وہ بھارت جو اپنے ہی ہندو دلیت اور دیگر نچلی ذاتوں کے ہندوؤں کے بنیادی انسانی حقوق کا منکر ہے، وہ بھارت جہاں مسیحی برادری سے بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہاں مسلمانوں کو بھی سڑکوں اور گلیوں میں مار مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے، تو ایک ایسا ملک مقبوضہ کشمیر میں کون کون سے مظالم نہ کرتا ہوگا!

اس وقت کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اپنا وجود نہیں رکھتی جبکہ وزیر اعلیٰ بھی نہیں ہے اور وہاں بھارت کی مرکزی حکومت کا گورنر راج مسلط تھا اور ہے۔ صرف یہ نہیں کہ پاکستان کے حامی یا آزادی کے حامی کشمیری رہنماؤں کو ہی بھارت نے قید و بند کی صعوبتوں سے دورچار کررکھا ہے بلکہ اس وقت محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بھی نظر بند ہیں۔ حالانکہ انکے اجداد کے بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات تھے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی ناکامی میں انکے بزرگان کا کلیدی کردار تھا۔ آج انکی اولادوں کو بھی لگ پتہ گیا ہوگا کہ بھارت ناقابل اعتماد فریق ہے، اس پر کسی صورت بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

قائدین اور سیاسی کارکنان ایک طرف، آج ایک عام کشمیری بھی گھر سے نکل نہیں سکتا کہ اس وقت مقبوضہ وادی کو کھلے آسمان کے نیچے انکے گھر، گلیاں، محلے مکمل طور پر جیل بنادیاگیا ہے۔ بھارت نے صرف یہ نہیں کیا بلکہ کشمیر اور کشمیریو ں کا مواصلاتی رابطہ اور خاص طور پر انٹرنیٹ بھی منقطع کردیا ہے۔ کشمیریوں پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھا گیا ہے۔وقفے وقفے سے نسل کشی،عصمت دری کے سانحات کی دل دہلادینے والی داستانیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام ہیں کیونکہ یہ صرف الفاظ کی حد تک عالمی ضمیر ہے ورنہ در حقیقت بے ضمیر ہے۔

عیدالاضحی پربھارت نے کشمیریوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دیا لیکن بھارتی حکومت اور مغربی ذرایع ا بلاغ اکا دکا افراد یا ڈیڑھ دو درجن افراد کی نامعلوم مقام کی تصاویر جاری کرکے دنیا کو گمراہ کررہے ہیں۔ جبکہ اس وقت کسی کو بھی مقبوضہ کشمیر تک رسائی نہیں دی جارہی تو یہ امریکی خبررساں ادارہ ایسوسی ایٹڈ پریس کیوں بھارت کے انسانیت کے خلاف جرائم پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے۔

کشمیر کے لئے پاکستانیوں نے اپنی عید کی خوشیاں قربان کردیں۔ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اس وقت جو قوم اور جو ملک ڈٹ کر کھڑا ہے وہ پاکستان ہے۔ پوری پاکستانی قوم، ریاست، سیاستدان، حکمران، اپوزیشن، سول و عسکری ادارے، سبھی کشمیر کے ایشو پر ایک ہیں، متحد ہیں، متفقہ بیانیہ کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہیں۔

چونکہ پاکستان میں بسنے والے پاکستانی شہری اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بھارت جو اپنے ہی ہندو دلیت اور دیگر نچلی ذاتوں کے ہندوؤں کے بنیادی انسانی حقوق کا منکر ہے، وہ بھارت جہاں مسیحی برادری سے بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہاں مسلمانوں کو بھی سڑکوں اور گلیوں میں مار مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے، تو ایک ایسا ملک مقبوضہ کشمیر میں کون کون سے مظالم نہ کرتا ہوگا!

یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے لئے پاکستانیوں نے اپنی عید کی خوشیاں قربان کردیں، انتہائی سادگی سے عید قربان منائی گئی۔ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اس وقت جو قوم اور جو ملک ڈٹ کر کھڑا ہے وہ پاکستان ہے۔ پوری پاکستانی قوم، ریاست، سیاستدان، حکمران، اپوزیشن، سول و عسکری ادارے، سبھی کشمیر کے ایشو پر ایک ہیں، متحد ہیں، متفقہ بیانیہ کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہیں۔

پاکستان کے بعد جس ملک کی سڑکوں پر، بڑے بڑے اجتماعات میں، جس کی حکومت، ممتاز رہنماؤں، قائدین اور عوام نے مظلوم کشمیریوں ستے یکجہتی کا اظہار کیا اوربھارتی مظالم کی مذمت کی یا ان پر شدید تنقید کی، وہ ملک ہمارا پڑوسی ملک ایران ہے۔ اسکے بعد ترکی ہے۔ کوئی عرب حکومت اس طرح کھل کر ہمارے ساتھ نہیں کھڑی ہوئی ہے۔

اس وقت محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بھی نظر بند ہیں۔ انکے اجداد کے بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات تھے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی ناکامی میں انکے بزرگان کا کلیدی کردار تھا۔ آج انکی اولادوں کو بھی لگ پتہ گیا ہوگا کہ بھارت پر کسی صورت بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

(نوٹ: کشمیر کی موجودہ صورتحال سمیت اس پورے ایشو کے مختلف پہلو ہیں، ادارہ شیعت نیوز نیٹ ورک ۱ ور پر اپنے قارئین کو مزید تحریروں کے ذریعے اپ ڈیٹ رکھے گا)

متعلقہ مضامین

Back to top button