کیاداعش سرغنہ مولوی حبیب الرحمن کو بچایا گیا ؟
ننگرھار کے مدرسوں میں داعش کی تبلیغ ہورہی ہے
افغان پارلیمنٹ میں داعش کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبے ننگرھار کے نمایندے کا کہنا ہے کہ اس صوبے کے مدارس میں داعش کی تبلیغ ہورہی ہے ۔
افغان نیوز اور آواپریس کے مطابق طاھر قدیر کا کہنا تھا کہ صوبہ ننگرھار میں کھلے انداز سے داعش کی تبلیغ کے بارے میں وہ سرکار اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کرچکے ہیں لیکن اب تک کسی قسم کا کوئی اقدام دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے ۔
واضح رہے افغانستان میں ہونے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلیا ہے کہ جس میں ایک بڑا خونین حملہ ننگر ھار صوبے ہیں انجام گذشتے ہفتے انجام پایا تھا ۔
مشرقی افغانستان کا صوبہ ننگر داعش کا اصلی مرکز ہے کہ جہاں سے اس دہشتگرد گروہ نے اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں کا آغاز کیا تھا ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہاں داعش کی سرگرمیوں کے آگے کس قسم کی خاص روکاوٹ نظر نہیں آتی اور داعش کے آئیڈیالوجکل اور عسکری ٹرینگ سنٹرز کی یہاں پر بہتات ہے ۔
ادھر افغانستان کے صوبے جوزان اور فاریاب میں داعش سرغنہ مولوی حبیبالرحمن اور تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب داعشی دہشتگردوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی خبر گذشتہ دنوں افغان میڈیا سمیت عالمی میڈیا میں نمایاں پوزیشن رکھتی تھی لیکن اب کہا جارہا ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز خبر تھی جو اڑائی گئی تھی ۔
افغان میڈیا اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد دعوا ہے جو کیا گیا ہے ،افغان اخبار ماندگار کا کہنا ہے کہ جوزان اور فاریاب علاقوں میں کئی ماہ سے طالبان اور داعش کے درمیان جنگ جاری تھی اور آخر کار داعش کو طالبان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
اخبار کے مطابق ان دونوں علاقوں میں موجود داعش حکومتی ذمہ داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے کہ جنہیں طالبان کے ہاتھوں شکست کے بعد ہیلی کاپٹروں کے توسط سے ریسکیوکیا گیا جنہیں اب داعش کی جانب سے ہتھیار ڈدالنے کی شکل دی جارہی ہے ۔
واضح رہے سرکاری طورکہا گیا تھا کہ ڈیڑھ سو کے قریب داعشی دہشتگردوں نے سرغنہ مولوی حبیب الرحمن کے ساتھ ہتھیار ڈالیں ہیں ۔
ادھر افغان میڈیا نے معروف افغانی دفاعی تجزیہ کار جاوید کوہستانی سے یہ بات نقل کی ہے کہ جو کچھ افغان سرکار نے داعش کے بارے میں کہا وہ خفیہ اداروں کی ملی بھگت تھی ۔
اس افغان تجزیہ کار کے مطابق شمالی افغانستان میں داعش سرغنہ مولوی حبیب الرحمن کہ جن کا تعلق صوبہ بلخ کے شولگرہ ڈسٹرکٹ سے ہے ،کو چند سال قبل کابل لایا گیا تھا ۔
تجزیہ کار مزید کہتا ہے کہ تین ماہ پہلے طالبان کو ارزگان، هلمند، زابل و نیمروزکے علاقوں سے شمالی افغانستان لایا گیا تھا اور یوں لگتا ہے کہ اس علاقے میں اب داعش کا صفایا گیا ہے اور ان کے سرغنوں کو کچھ سرگردہ افراد کے ساتھ ریسکیو کیا گیا ہے ۔
افغان سیکوریٹی اور عسکری امور کے ماہر جاوید کوہستانی نے اشرف غنی کے سرکار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے بارے میں سرکاری پالیسی انتہائی پیچیدہ اور مشکوک دیکھائی دیتی ہے ۔
انہوں نے دعوا کیا کہ شمالی افغانستان میں داعش کے نام پر جس گروہ کو تشکیل دیا گیا تھا اس کے پچھے حکومت کا ہاتھ تھا کہ جسے وہ اگلے اہداف کے لئےریسکیوکرچکے ہیں ۔
افغان حکومت کی داعش دہشتگردوں کیخلاف اس کنفیوژپالیسی کے بارے میں صرف جاوید کوہستان ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بہت سے تجزیہ کارالزام لگاتے ہیں کہ افغان حکومت داعش کے مقابلے میں ایک قسم کا نرم رویہ رکھتی ہے ۔
تجزیہ کار وحید مژدہ کا شمار بھی ان تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے کہ جن کا کہنا ہے کہ ’’کیاسرکاری اور بیرونی ہیلی کاپٹروں کی مشکوک پروازوں کے بارے میں پارلیمان کے ممبروں،سول سوسائٹی اوربیرونی ممالک نے بھی اپنے خدشات کا اظہار نہیں کیا ہے ؟‘‘
وحید کا کہنا ہے کہ جوزان اور فاریاب کے قوش تپہ نامی علاقے میں جب طالبان کے ہاتھوں داعش کو شکست ہوئی تو انہیں فورا ریسکیوکیا گیا