مشرق وسطی

عالمی صہیونیت کے زیر نگرانی شام سے وائٹ ہیلمٹ دھشت گردوں کا انخلاء

دمشق (مانیٹرنگ ڈیسک) دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد ہونے والے علاقوں میں شامی فوج کے ہاتھوں جو دستاویزات ہاتھ لگی ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وائٹ ہیلمٹ کے افراد دہشت گردوں کی حمایت کرتے تھے۔

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، شام میں سرگرم وائٹ ہیلمٹ کے تقریبا بائیس سو عناصر دراصل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے خفیہ اداروں سے وابستہ ہیں اور آٹھ سو عناصر امریکا، کینیڈا اور یورپی ملکوں کے ہیں جنھیں شام سے فرار کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

شامی ذرائع کا کہنا ہے کہ وائٹ ہیلمٹ کے عنوان سے خفیہ اہلکار اور خصوصی فوجی مختلف ملکوں کے شہری ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے جو عناصر جنوبی شام سے مقبوضہ فلسطین اور پھر وہاں سے اردن اور پھر دیگر ملکوں کو فرار کر گئے ہیں، ان کی تعداد تین ہزار ہے- ان میں صرف وائٹ ہیلمٹ سے وابستہ عناصر ہی نہیں تھے بلکہ خلیج فارس کے بعض عرب ملکوں کے خفیہ اداروں کے افسران بھی شامل تھے-

دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد ہونے والے علاقوں میں شامی فوج کے ہاتھوں جو دستاویزات ہاتھ لگی ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وائٹ ہیلمٹ کے افراد دہشت گردوں کی حمایت کرتے تھے اور جبہت النصرہ یا تحریر الشام کے ذریعے عام شہریوں پر جو کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے جاتے تھے یہ عناصر اس میں دہشت گردوں کا پورا پورا ساتھ دیتے تھے۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم نتن یاہو نے بھی وائٹ ہیلمٹ کے عناصر کو شام سے باہر نکالنے اور فرار کرانے میں اسرائیل کے کردار کا اعتراف کیا ہے۔ صہیونی ریاست کی فوج کے ترجمان “اویخا ادرعی” نے کہا ہے کہ یہ واہٹ ہیلمٹ کے عناصر کو امریکہ اور یورپی ممالک کے مطالبے پر اردن منتقل کیا گیا ہے۔

باخبر ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی شام سے واہٹ ہیلمٹ تنطیم سے وابستہ عناصر کو مقبوضہ فلسطین میں فرار کرانے میں صیہونی حکومت کے ساتھ ساتھ خلیج فارس کی بعض حکومتوں کی خفیہ تنظیموں نے بھی رول ادا کیا ہے۔ دوسری جانب اردن نے بھی وائٹ ہیلمٹ کے نکل جانے کی تصدیق اور ان کے آٹھ سو عناصر کو مغربی ممالک منتقل کرنے کے لئے اپنے یہاں منتقلی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب اقوام متحدہ کے پروگرام کے مطابق انجام پایا ہے اور اس سلسلے میں اردن کا کوئی رول نہیں ہے۔

برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا نے شام میں دہشت گردوں کے علاقوں میں وائٹ ہیلمٹ سے وابستہ شامی عناصر کی خطرناک صورت حال کا بہانہ بنا کر یہ طے کیا تھا کہ ایک محدود وقت کے لئے یہ عناصر اردن کے اندر ایک پرامن مقام پر ٹھہریں اور اس کے بعد وہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ آئیں۔ درحقیقت یہ سارے اقدامات شام سے وائٹ ہیلمٹ کے عناصر کو باہر نکالنے کے منصوبے کے تحت انجام پا رہے ہیں جن پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے عام شہریوں پر کیمیاوی حملوں کی جھوٹی خبریں نشر کر کے ان کا ذمہ دار شامی حکومت اور فوج کو قرار دیا تھا-

خیال رہے کہ واہٹ ہیلمٹ تنطیم کو مارچ 2013 میں برطانیہ کے سابق فوجی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ماہر “جیمزلو میجرر” نے واشنگٹن کے تعاون سے ترکی میں جنم دیا۔ اور ابتدا سے ہی اس تنظیم کو دھشتگرد گروہوں کے زیر تسلط علاقوں میں سرگرمیاں انجام دینے پر مامور کیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button