پاکستان

اے پی ایس سے لیکر مستونگ واقعہ تک نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے؟

شیعیت نیوز: سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سانحہ مستونگ قومی اتفاق رائے کا تقاضا کرتا ہے ، اے پی ایس سے لیکر مستونگ واقعہ تک نیشنل ایکشن پلان کدھر کھڑا ہے ، قومی اتفاق رائے کہاں ہے؟ یہ واقعہ پاکستان کے نظام کو دھرم بھرم کرنے کی مذموم کوشش ہے، جمعہ کے روز ہونے والا سانحہ مستونگ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد مزید بڑھتی ہوئی نظر آئی ہے ، سانحہ مستونگ اور بنوں پر ملک بھر میں سوگ کا سما ں رہا جبکہ سرکاری سطح پر اہم عمارتوں پر سیاہ پرچم بھی لہرائے گئے۔ سانحہ کے بعد الیکشن کے لیے جو سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں وہ متاثر ہوگئی ہیں۔ ان واقعات کے بعد پاکستان میں جو صورتحال بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس پر سینئر تجزیہ کار شہزاد چوہدری نےکہا کہ یہ ایک المنا ک واقعہ تھا، پاکستان کے انتخابات جس کا تعلق پاکستان کی سیاسی بقا ء اور استحکام کے ساتھ اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔افتخار احمد نے تبصرہ کیا کہ 48گھنٹے بعد ہمیں بھی یاد آگیا کہ مستونگ کے شہیدوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا ہے اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ہم بطور قوم کہاں کھڑے ہیں اور وفاق کی صورتحال کیا ہے ؟ بلوچستان میں جو پاکستان سے محبت کرنے والے گروہ ہیں وہ بہت مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے ،میری میڈیا سے گزارش ہے کہ جہاں نوازشریف کی گرفتاری اہم تھی وہاں یہ واقعہ بھی بہت اہم تھا ۔ ارشاد بھٹی نے کہا ہے کہ غم، دکھ اور تکلیفیں، شہیدوں کی قربانیاں اپنی جگہ ہیں لیکن ہم ہم سانحہ کے بعد یہی باتیں کرکے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور کاموں میں مگن ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان کو 800ارب ملا ان سرداروں نے کیا کیا اس پیسے کا ؟ پولیس کا حال دیکھا ہے۔ سینئر صحافی مظہر عباس نے اپنی گفتگو کاآغاز اس شعر سے کیا اور کہ ’مرجائے گی مخلوق تب انصاف کرو گے منصف ہوتو حشر بپا کیوں نہیں کرتا، 18اکتوبر 2018سانحہ کارساز کے بعد یہ سب سے بڑا واقعہ ہے ، جتنی بڑی تعداد میں جو لوگ شہید ہوئے ہیں وہ سیاسی کارکن تھے انکے حمایتی تھے ، اور سانحہ کارساز میں بھی 150کے قریب لوگ شہید ہوئے تھے اس میں زیادتر پی پی کے کارکنان تھے اور اس میں رئیسانی کے سپورٹرز تھے ۔یہ واقعہ قومی اتفاق رائے کا تقاضا کرتا ہے ، ہم ردعمل کرتے ہیں اے پی ایس جب ہوگیا تو ہمیں خیال آیا کہ دہشت گردی کے معاملے میں ہم سے سست رفتاری ہورہی ہے، اے پی ایس سے لے کر مستونگ تک نیشنل ایکشن پلان کدھر کھڑا ہے ، قومی اتفاق رائے کہا ہے؟ اگر عمران خان ، شہباز شریف، بلاول بھٹو ایک ہی جہاز میں مستونگ جاتے اور حوصلہ دیتے ۔ حفیظ اللہ نیا زی نے کہا کہ سراج رئیسانی بہت بڑا پاکستانی تھا، بلوچستان میں پورا پاکستانی ہونا ایک نعمت غیر متوقع ہے ، ہمارے پاس اللہ کی طرف سے نعمت تھی جس سے ہم محروم ہوگئے ہیں ۔ یہ واقعہ پاکستان کے نظام کو دھرم بھرم کرنے کی مذموم کوشش ہے لیکن یہ کوشش دشمن کی فوج کررہی ہے اور ہمیں اپنی فوج پر اعتماد ہے اس کا بھر پور جواب دیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button