مقالہ جات

یمن پر مسلط کردہ سعودی جنگ کے 3 سال

یمن کے مظلوم اور نہتے مسلمانوں اور عربوں پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی مسلط کردہ یکطرفہ اور بلاجواز جنگ تیسرا سال مکمل کرتی ہوئی چوتھے سال میں داخل ہو رہی ہے، لیکن تاحال اقوام متحدہ نام کا عالمی ادارہ سوائے کھوکھلی تنقید، نمائشی اجلاس اور اعداد و شمار پیش کرنے کے کوئی نتیجہ خیز عملی قدم نہیں اٹھا سکا ہے۔ دنیا کے غریب ترین عرب ملک یمن میں سعودی و اتحادی فوجی جارحیت کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے شعبے نے پچھلے سال جنوری میں رپورٹ دی تھی، جب اس جنگ کا دوسرا سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا، تب دس ہزار عام یمنی شہری شہید ہوچکے تھے جبکہ چالیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت جیمی مک گولڈ ریک کے مطابق ایک کروڑ نوے لاکھ یمنی شہریوں کو انسانی امداد کی شدید ضرورت تھی اور تیس لاکھ سے زائد یمنی شہری نقل مکانی پر مجبور ہوکر دیگر علاقوں کا رخ کرچکے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نقصان صرف اتنا ہی ہوا ہے جتنا اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ میں پچھلے سال یا اس کے بعد وقتاً فوقتاً ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ لیکن اگر اقوام متحدہ کے اعداد و شمار ہی درست مان لیں، تب بھی سعودی و اتحادی افواج کی اس جارحیت کے باوجود امریکہ و برطانیہ نے ان حملہ آور ممالک کو اسلحے کی فروخت منسوخ نہیں کی۔ پچھلے سال یعنی 2017ء میں ایک ارب دس کروڑ پونڈ مالیت کا اسلحہ برطانیہ نے سعودی عرب کو فروخت کیا جبکہ امریکہ نے خاص طور پر صرف یمن جنگ کے لئے سعودی عرب اور متحدہ امارات کو 65 کروڑ ڈالر کا مہلک اسلحہ فروخت کیا، جو امریکی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹ کمرشل سیلز پروگرام کے تحت براہ راست فروخت کیا گیا، دیگر اسلحہ اس کے علاوہ تھا۔

سال 2016ء میں متحدہ عرب امارات نے اس پروگرام کے تحت چھ کروڑ ڈالر مالیت کا چھوٹا اسلحہ امریکہ سے خریدا تھا جبکہ سعودی عرب نے ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر مالیت کی مشین گنیں خریدی تھیں۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد اور وزی دفاع محمد بن سلمان آل سعود کے دورہ برطانیہ و امریکہ میں اسلحے کی خرید و فروخت کے نئے عہد و پیمان بھی ہوئے ہیں۔ یعنی تاحال سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کو یمن پر مسلط کردہ اس جنگ کو جاری رکھنے کے لئے مطلوبہ حمایت و کمک امریکہ و برطانیہ فراہم کر رہے ہیں۔ ایک جانب امریکہ، برطانیہ، فرانس و دیگر یورپی ممالک کے عوام کی اکثریت سعودی اتحاد کی یمن جنگ کی مخالفت میں پیش پیش ہے، حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی اس جنگ کو فور ی ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ سعودی حکومت کی مذمت کر رہی ہیں تو دوسری جانب ان مغربی ممالک کی حکمران شخصیات اور ادارے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو سونے کی کان سمجھ کر ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ لیکن مسلمان، عرب اور مغربی رائے عامہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں امریکہ میں حکمران جماعت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے بھی امریکی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ کم سے کم اس وقت امریکی سینیٹ کے 44 اراکین ایسے ہیں کہ جو یہ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کی یمن پر مسلط کردہ جنگ میں امریکی حکومت فریق نہ بنے، شمولیت اختیار نہ کرے اور انکی مدد بھی نہ کرے۔ بائیں بازو کی سیاست کرنے والے برنی سینڈر جو آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئے ہیں اور جو ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں دوسرے نمبر پر رہے، انہوں نے ری پبلکن سینیٹر مائیک لی جو ٹی پارٹی کے بھی رہنما ہیں، کے ساتھ مل کر سینیٹ میں قرارداد پیش کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ یمن پر سعودی جنگ کی حمایت ختم کر دے۔ یہ قرارداد اس دباؤ کا نتیجہ تھا جو یمن کے یتیم بچوں، بیوہ خواتین کی آہوں اور ان کے اجڑے گھروں، اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور بازاروں کی تباہ حالی کی وجہ سے امریکہ کے باضمیر عوام کا پیدا کردہ تھا۔

اس قرارداد نے نہ صرف امریکی اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی بلکہ ریاض میں سعودی بادشاہی محلات میں بھی اس کی گونج سنائی دینے لگی۔ یاد رہے کہ یمن پر مسلط کردہ سعودی جنگ کو اقوام متحدہ کی اجازت یا حمایت حاصل نہیں اور نہ ہی امریکی کانگریس نے امریکی حکومت کو اس جنگ میں شمولیت کی اجازت دی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ کی ٹرمپ سرکار نے اپنی وزارت خارجہ و دفاع کو اس قرارداد کے خلاف راہ ہموار کرنے کا حکم جاری کیا۔ واشنگٹن میں سعودی سفارتخانہ حرکت میں آیا اور اس کی جانب سے بھی یمن کی جنگ پر گمراہ کن بیانیہ اور جھوٹے مفروضوں کے ذریعے سینیٹرز کو قرارداد کی حمایت سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے سینیٹ میں اکثریت کے رہنما مک کونیل کو خط لکھا۔ پینٹاگون اور وزارت خارجہ نے خفیہ بریفنگس میں ایسا منظر نامہ پیش کیا کہ بہت سے سینیٹرز قائل ہوگئے، کیونکہ اسرائیلی لابی بھی سعودی عرب کے حق میں لابنگ کر رہی تھی۔ ٹرمپ حکومت کے افسران نے کہا کہ اگر قرارداد منظور ہوگئی تو سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے بہانہ بنایا کہ تیکنیکی بنیادوں پر بھی امریکہ براہ راست جنگ میں شامل ہے ہی نہیں بلکہ صرف انٹیلی جنس شیئرنگ اور لاجسٹک اور فوجی مشورے کی حد تک سعودی عرب کا ساتھ دے رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ چونکہ امریکہ جنگ میں شامل ہی نہیں اس لئے سینیٹرز اس مسئلے پر کوئی فیصلہ سنانے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ برنی سینڈرز، مائیک لی سمیت 44 سینیٹرز نے اس موقف کو مسترد کرکے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور انکا اصرار تھا کہ امریکہ کی موجودہ پالیسی بھی درحقیقت سعودی جنگ میں شمولیت ہی کے مترادف ہے۔

امریکہ صرف اسلحہ ہی فروخت نہیں کر رہا بلکہ سعودی ’’وار روم‘‘ میں امریکہ و برطانیہ کے فوجی افسران خود موجود ہیں اور یمن پر بمباری کرنے والے جنگی طیاروں کو دوران پرواز ایندھن بھی امریکہ ہی فراہم کر رہا ہے۔ برنی سینڈرز کا موقف ہے کہ امریکی قانون ساز ادارے کو ہی یہ حق ہے کہ وہ کسی جنگ کا فیصلہ کرے۔ انکا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی معاونت کرنے کا مطلب یہی ہے کہ امریکہ بھی اس تنازعے میں (شریک) ہے، چونکہ 55 سینیٹرز نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا، اسلئے اب یہ معاملہ دوبارہ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔ اس وقت امریکہ میں ٹرمپ سرکار کی سعودی نواز پالیسی کو اسرائیلی لابی کے ساتھ ساتھ اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسرائیلی و سعودی لابی نے امریکہ میں یمن کی جنگ کو ایران کے کھاتے میں ڈال کر پیش کیا ہے۔ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے، جس پر کم لوگ ہی اعتبار کرتے ہیں۔ امریکہ کے باخبر حلقوں کو معلوم ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یمن اور یمن کے اطراف میں بحر ہند، خلیج عدن، باب المندب سے بحر احمر تک گھیراؤ کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے یمن کو زمینی، بحری اور فضائی راستوں سے کوئی بھی چیز ایران پہنچا ہی نہیں سکتا۔ ایران اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی امداد پہنچاتا ہے، جو کہ سخت چیکنگ کے بعد ہی یمن میں داخل ہوتی ہے۔ امریکہ سمیت پورے یورپ میں ہر باشعور کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ یمن کی جنگ سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان کا اپنا ایجاد کردہ مسئلہ ہے، جو اس کے لئے بڑی آزمائش بن چکا ہے اور اس یکطرفہ مسلط کردہ جنگ میں سعودی افواج مکمل طور پر اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔

صنعاء سمیت بہت سے یمنی علاقوں میں یمن کی عوامی نمائندہ مقاومتی حوثی تحریک یعنی حرکت انصار اللہ کا کنٹرول ہے اور جسے بلا تفریق سنی عربوں کی بھی حمایت و تائید حاصل ہے، کیونکہ سعودی بمباری سے عام یمنی شہری کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ یمن میں متحدہ عرب امارات علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہا ہے، جو سعودی حمایت یافتہ منصور ہادی عبد ربہ کے بھی مخالف ہیں اور اس کے حامیوں پر حملے بھی کرچکے ہیں۔ لیکن اس ساری صورتحال کا ایک اور رخ بھی ہے۔ وہ دوسرا رخ یہ ہے کہ اندرونی طور پر سعودی اتحاد کو یہ یقین ہوچکا ہے کہ اس مسئلے کا فوجی حل ہے ہی نہیں اور جلد یا بدیر انہیں سیاسی حل پر ہی مجبور ہونا پڑے گا۔ بیس ماہ قبل کویت میں بھی ایک معاہدے کا متن تیار کیا گیا تھا۔ یعنی حرکت انصار اللہ سے معاہدے کے لئے درون خانہ کوششوں میں جو تعطل آگیا تھا، اب خود امریکی حکومت کے بعض حکام اس تعطل کو ختم کرنے کے لئے فعالیت دکھا رہے ہیں۔ سعودی عرب کی شرط ہے کہ حرکت انصار اللہ مسلح مزاحمت کا آپشن ہمیشہ کے لئے ختم کرتے ہوئے ہتھیار پھینک دے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے عمان کے دارالحکومت مسقط کا دورہ کرکے عمانی حکام سے بات چیت کی ہے۔ بظاہر وہ سعودی شکایات پر بات کرنے گئے تھے کہ کہیں عمان سے تو یمن میں اسلحہ نہیں پہنچایا جا رہا، لیکن واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ سلطان قابوس کے ذریعے ایران سے مسئلہ یمن پر بھی مذاکرات کی راہ ہموار کی جارہی ہے، تاکہ ایران سے باضابطہ درخواست کی جاسکے کہ حرکت انصار اللہ کو کسی معاہدے پر راضی کرے۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پہلے ہی یمن جنگ کے خاتمے کے لئے چارنکاتی حل تجویز کرچکے ہیں۔ یعنی فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فوری فراہمی، یمنی فریقوں کے مابین مذاکرات اور سبھی یمنی اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل حکومت کا قیام۔ اس چار نکاتی حل پر خود سعودی حکومت راضی نہیں ہے کیونکہ مذاکرات یمنی فریقوں کے مابین ہوں گے، سعودی عرب کے ساتھ نہیں کہ وہ کوئی شرط رکھے۔ امریکہ بیک وقت دونوں محاذوں پر مصروف ہے، ایک طرف سعودی اور اماراتی افواج کی مدد کر رہا ہے تو دوسری جانب مذاکرات کا ڈھونگ بھی رچا رہا ہے۔ اگر امریکہ کے اپنے عوام و خواص اور برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کے عوام و خواص نے اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ بڑھایا تو وہ یمن جنگ کے خاتمے کے لئے پرامن سیاسی حل پر سعودی حکومت کو جلد ہی مجبور کرنے پر مجبور ہوں گے، ورنہ مسلمانوں اور عربوں کا جان و مال، عزت سبھی پر یمن میں سعودی و اماراتی حملے جاری رہیں گے۔ خدا یمن کے مظلوموں کو ظلم سے نجات دے اور جارح ظالموں کو نابود کرے۔ اقوام متحدہ پر بھی دباؤ بڑھایا جانا چاہئے کہ وہ سعودی و اماراتی افواج پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرے اور انہیں یمن پر جارحیت کی سزا سنائے۔
تحریر: عرفان علی

متعلقہ مضامین

Back to top button