پاکستان

اوریا مقبول جان کی جانب سے متاثرین دہشتگردی کے حقائق مسخ کرنا افسوسناک ہے، نصرت شاہانی

شیعیت نیوز: وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے میڈیا سیکرٹری نصرت علی شاہانی نے کالم نگار کے نجی ٹی وی چینل پر دہشتگردی کے حوالے سے حقائق کو مسخ کرنیوالی گفتگو پر افسوس کرتے ہوئے اسے مظلوموں کے ناحق خون کو چھپانے کو دہشتگردوں کا دفاع قرار دیا ہے۔ غیر جانبدار تجزیے اور نظریے سے عاری کالم نگار (اوریا مقبول جان) کے نام ذاتی مراسلے میں نصرت شاہانی نے کہا کہ عام معلومات رکھنے والا آدمی بھی جانتا ہے کہ وطن عزیز میں شیعہ سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ہوئے۔ مظلوموں کے خون کو چھپانا دراصل ظالموں، قاتلوں، دہشتگردوں کا دفاع ہے جو کہ بدترین جرم اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ موصوف کا یہ دعویٰ کہ دہشتگردی کے متاثرین میں شیعہ اعشاریہ صفر (.000000 )سے بھی کم ہیں، کسی باضمیر اور باخبر شخص کا دل و دماغ اسے قبول نہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کم و بیش 30 سال پہ محیط بھیانک دہشتگردی میں ضرب عضب سے قبل تو شیعہ متاثرین کی تعداد واضح طور پر زیادہ تھی، اس کے بعد بھی مجموعی طور پر یہی صورتحال ہے۔ فقط کوئٹہ میں شیعہ مسلک کی مساجد، امام بارگاہوں، جلوسوں اور جنازوں کے اجتماعات کو بار بار نشانہ بنایا گیا جن میں بیگناہ افراد کی کثیر تعداد شہید ہوئی۔

 

نصرت شاہانی نے استفسار کیا کہ کیا موصوف کالم نگار بتا سکتے ہیں کہ صرف کوئٹہ شہر میں دیگر مسالک کے کس مذہبی اجتماع، مسجد، جلوس پر ایسے حملے ہوئے؟ اسی طرح کراچی، ڈیرہ اسماعیل خان اور پارا چنار میں شیعہ مسلک کے پیروکاروں پر پے درپے حملے ہوتے رہے، جن میں بیک وقت ایک سو سے زیادہ بے گناہ شہید ہوئے۔ ان شہروں میں دیگر مسالک کیخلاف اس انداز کی کونسی دہشتگردی ہوئی؟ کراچی میں فقط بریلوی بھائیوں کے عید میلادالنبی کے ایک جلوس پر حملہ ہوا تھا۔ جس میں سنی تحریک کی قیادت کو شہید کیا گیا، جبکہ کراچی اور دیگر شہروں میں کئی سو شیعہ ڈاکٹروں اور دیگر ٹیکنوکریٹس کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا گیا۔ دیگر کس مسلک کیساتھ ایسا سلوک ہوا؟ چلاس اور بابو سر ٹاپ پر گلگت سکردو جانیوالی بسوں سے لوگوں کو اُتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے شیعہ ثابت ہونے پر سفاکانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ دیگر کس مسلک کے لوگوں کیساتھ ایسا سلوک ہوا؟ حتیٰ کہ کوئٹہ میں شیعہ خواتین کو بسوں میں شناخت کرکے دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسی مثال کسی اور مسلک کی عورتوں کے بارے میں نہیں ملتی۔ نصرت شاہانی نے افسوس کا اظہار کیا کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں شہید ہونیوالے کم سن شیعہ طلبا کے ناحق خون کو بھی دہشتگردوں کے حامی اس نام نہاد کالم نگار نے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ بعض لوگوں کے مطابق داعش اور طالبان جیسی دہشتگرد تنظیموں کے حمایتی مخصوص ذہنیت کے حامل اس شخص کے دل سے لگتا ہے کہ خوف خدا نکل چکا ہے اور شاید انہیں مظلوم کے خون کی طاقت کا اندازہ نہیں۔ انہیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یزید اور ان جیسے بڑے بڑے سفاک حکمران بھی مظلوموں کا خون نہیں چھپا سکے۔ عذاب الہٰی اور ابدی رسوائی ان کا مقدر بنی۔

 

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے میڈیا سیکرٹری نصرت علی شاہانی نے کالم نگار کے نجی ٹی وی چینل پر دہشتگردی کے حوالے سے حقائق کو مسخ کرنیوالی گفتگو پر افسوس کرتے ہوئے اسے مظلوموں کے ناحق خون کو چھپانے کو دہشتگردوں کا دفاع قرار دیا ہے۔ غیر جانبدار تجزیے اور نظریے سے عاری کالم نگار (اوریا مقبول جان) کے نام ذاتی مراسلے میں نصرت شاہانی نے کہا کہ عام معلومات رکھنے والا آدمی بھی جانتا ہے کہ وطن عزیز میں شیعہ سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ہوئے۔ مظلوموں کے خون کو چھپانا دراصل ظالموں، قاتلوں، دہشتگردوں کا دفاع ہے جو کہ بدترین جرم اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ موصوف کا یہ دعویٰ کہ دہشتگردی کے متاثرین میں شیعہ اعشاریہ صفر (.000000 )سے بھی کم ہیں، کسی باضمیر اور باخبر شخص کا دل و دماغ اسے قبول نہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کم و بیش 30 سال پہ محیط بھیانک دہشتگردی میں ضرب عضب سے قبل تو شیعہ متاثرین کی تعداد واضح طور پر زیادہ تھی، اس کے بعد بھی مجموعی طور پر یہی صورتحال ہے۔ فقط کوئٹہ میں شیعہ مسلک کی مساجد، امام بارگاہوں، جلوسوں اور جنازوں کے اجتماعات کو بار بار نشانہ بنایا گیا جن میں بیگناہ افراد کی کثیر تعداد شہید ہوئی۔

نصرت شاہانی نے استفسار کیا کہ کیا موصوف کالم نگار بتا سکتے ہیں کہ صرف کوئٹہ شہر میں دیگر مسالک کے کس مذہبی اجتماع، مسجد، جلوس پر ایسے حملے ہوئے؟ اسی طرح کراچی، ڈیرہ اسماعیل خان اور پارا چنار میں شیعہ مسلک کے پیروکاروں پر پے درپے حملے ہوتے رہے، جن میں بیک وقت ایک سو سے زیادہ بے گناہ شہید ہوئے۔ ان شہروں میں دیگر مسالک کیخلاف اس انداز کی کونسی دہشتگردی ہوئی؟ کراچی میں فقط بریلوی بھائیوں کے عید میلادالنبی کے ایک جلوس پر حملہ ہوا تھا۔ جس میں سنی تحریک کی قیادت کو شہید کیا گیا، جبکہ کراچی اور دیگر شہروں میں کئی سو شیعہ ڈاکٹروں اور دیگر ٹیکنوکریٹس کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا گیا۔ دیگر کس مسلک کیساتھ ایسا سلوک ہوا؟ چلاس اور بابو سر ٹاپ پر گلگت سکردو جانیوالی بسوں سے لوگوں کو اُتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے شیعہ ثابت ہونے پر سفاکانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ دیگر کس مسلک کے لوگوں کیساتھ ایسا سلوک ہوا؟ حتیٰ کہ کوئٹہ میں شیعہ خواتین کو بسوں میں شناخت کرکے دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسی مثال کسی اور مسلک کی عورتوں کے بارے میں نہیں ملتی۔ نصرت شاہانی نے افسوس کا اظہار کیا کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں شہید ہونیوالے کم سن شیعہ طلبا کے ناحق خون کو بھی دہشتگردوں کے حامی اس نام نہاد کالم نگار نے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ بعض لوگوں کے مطابق داعش اور طالبان جیسی دہشتگرد تنظیموں کے حمایتی مخصوص ذہنیت کے حامل اس شخص کے دل سے لگتا ہے کہ خوف خدا نکل چکا ہے اور شاید انہیں مظلوم کے خون کی طاقت کا اندازہ نہیں۔ انہیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یزید اور ان جیسے بڑے بڑے سفاک حکمران بھی مظلوموں کا خون نہیں چھپا سکے۔ عذاب الہٰی اور ابدی رسوائی ان کا مقدر بنی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button