پاکستان

عسکری تنظیم انصار الشریعہ سے متاثر تعلیم یافتہ نوجوانوں

شیعیت نیوز: عسکری تنظیم انصار الشریعہ سے متاثر تعلیم یافتہ نوجوانوں انصار الشریعہ کے مزید 3 دہشت گرد گرفتار، تعداد 8 ہو گئی، تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد ٹیکنالوجی کا استعمال بھی جانتے تھے۔ مرکزی ملزم عبدالکریم کے والد نے بتایا کہ انہیں ایک سال قبل بیٹے کے پاس اسلحے کی موجودگی کا پتہ چلا، جو رات بھر جاگتا اور مشکوک حرکات و سکنات پر کوئی تسلی بخش جواب نہ دیتا۔لیبیا میں عسکری تنظیم انصار الشریعہ سے متاثر کراچی کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے دو سال قبل انصار الشریعہ پاکستان کی بنیاد رکھی دہشتگرد تنظیم کا مقصد سکیورٹی اداروں اور اہم شخصیات کو نشانہ بنا کر شہرت حاصل کرنا تھا۔

 یہی وجہ تھی کہ دو ہزار سترہ میں انصار الشریعہ کے دہشتگردوں  نے ہر واردات کے بعد پمفلٹ پھینکا۔ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد ٹیکنالوجی کا استعمال بھی جانتے تھے۔ پکڑے نہ جائیں اس لئے واٹس اپ گروپ پر ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے تھے۔

 تفتیشی ذرائع کے مطابق ہلاک دہشت گرد حسان کے موبائل فون سے پورے نیٹ ورک کا سراغ ملا دہشت گرد کسی بھی کارروائی کرنے سے پہلے سہراب گوٹھ کے ایک گھر میں کپڑے تبدیل کرتے تھے۔

انصار شریعہ کا نیٹ ورک 10 سے 12 دہشت گردوں پر مشتمل ہے۔ آٹھ دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ دو افغانستان میں ہیں جبکہ ایک دہشت گرد حسان مارا گیا ہے۔ فرار ہونے والے ملزم عبد الکریم سروش کی تلاش جاری ہےتفتیشی ذرائع کے مطابق حسان کے چچا پولیس افسر ہے جنھیں تحویل میں لے کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ تفتیشی حکام کو وہ کمپیوٹرز، ڈیوائیسز، یو ایس بیز اور پمفلٹ بھی مل گئے ہیں جو دہشت گرد واردات کے بعد پھیکنتے تھے۔

دوسری جانب خواجہ اظہار پر حملے کے مرکزی کردار عبدالکریم سروش کے والد نے سنسنی خیز انکشافات کر ڈالے۔ اپنے بیان میں انہوں  نے بتایا کہ وہ بیٹے کی سرگرمیوں سے لاعلم تھے تاہم اسکی مشکوک حرکتوں نے انہیں شبے میں ضرور ڈال دیا تھا۔ اپنے بیان میں عبدالکریم کے والد نے بتایا کہ انہیں ایک سال قبل بیٹے کے پاس اسلحے کی موجودگی کا پتہ چلا، جو رات بھر جاگتا اور مشکوک حرکات و سکنات پر کوئی تسلی بخش جواب نہ دیتا۔ انہوں نے بتایا کہ اس بات کا انہیں پہلے سے علم تھا کہ انکا بیٹا پولیس کیخلاف ہے اور اسکی وجہ دو سال پہلے گلشن اقبال سے انکی چوری ہونے والے گاڑی تھی جس کی برآمدگی کے لیے وہ اکثر پولیس سے الجھتا رہتا تھا۔

عبدالکریم کے والد نے یہ بھی بتایا کہ انہیں شبہ تھا کہ انکا بیٹا کسی کالعدم تنظیم سے وابستہ ہے، عبدالکریم ایک سال کے دوران دو بار ایک ہفتے اور دو ہفتوں کے لیے غائب ہوا، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ افغانستان گیاتھاعبدالکریم کے والد کا کہنا تھا کہ عید کے دن حسان کی شناخت کے بعد انہوں نے پہچان لیا کہ یہ وہی نوجوان ہے جو انکے گھر آتا تھا، عبدالکریم عید کے دن سے جاگ رہا تھا، اسے یقین تھا کہ وہ پکڑاجائے گا۔

 انکشاف ہوا ہے کہ پولیس کے چھاپہ مارنے پر والد نے عبدالکریم کو ہتھیار ڈالنے کا کہا لیکن اس نے گرفتاری دینے سے انکار کرتے ہوئے پولیس کو جان سے مارنے کا کہا، والد کے بیان کی روشنی میں تفتیش کاروں نے تفتیش کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ذرائع کے مطابق خواجہ اظہار الحسن کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد مغربی تعلقات اور روشن خیالی تھی، پولیس کو ٹارگٹ کرنے کی وجہ ایک بار ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی سے ناروا سلوک تھا، دہشتگرد اگلے مرحلے میں سکیورٹی فورسز کو ٹارگٹ کرنے جا رہے تھے، دہشتگردوں نے رینجرز کی ایک چوکی کی بھی ریکی کر لی تھی۔ انصار الشریعہ کے عسکری ونگ میں 4 سے 5 کارکن، تبلیغی ونگ میں تھے، ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی ٹارگٹ کی ریکی اور انھیں قتل کرنے کے احکامات دیتا تھا۔

 ٹارگٹ کلنگ میں سروش صدیقی، مزمل اور مارا گیا حسان اسرار شامل تھا۔ ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی نے افغانستان میں تربیت حاصل کی اور پھر پاکستان آیا۔ دیگر دہشتگردوں کو ٹریننگ بلوچستان کے کسی نامعلوم مقام پر دلوائی گئی۔ انصار الشریعہ کے دہشتگرد فنڈز کا بندوبست اپنے خاندان کے لوگوں سے ہی کرتے، تمام دہشتگرد خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے تھےدہشتگرد اپنے خاندان سے غریبوں کی مدد کے نام پر زکوۃ، قربانی کی کھالیں اوردیگر فنڈز لیتے تھے۔ سروش صدیقی انصار الشریعہ کا تمام اسلحہ رکھنے کا ذمہ دار تھا۔ سارے ہتھیار واردات سے پہلے اور بعد میں اسی کے پاس ہوتے تھے۔سروش صدیقی نے نارتھ کراچی کے ایک سکول سے میٹرک کیا۔ گلشن اقبال ڈگری کالج، نجی انجینئرنگ اسٹیٹیوٹ اور پھر کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیاسروش صدیقی نے 2015ء میں گلستان جوہر میں ایک انٹرپرائسز میں اسسٹنٹ مینجر کی نوکری بھی کی۔ سربراہ انصار آل شریعہ نے کئی کارروائیوں کا اعتراف کیا۔ دہشتگردوں کی سب سے پہلی کارروائی گلستان جوہر میں پولیس فاونڈیشن کے گارڈ کا قتل تھا۔ 

 

متعلقہ مضامین

Back to top button