پاکستان

دیوبند علماء کا پاک فوج پر جانبداری کا الزام ، سانحہ راجہ بازار حقیقت کیا ھے ؟

جامعہ تعلیم القرآن کے مہتمم مولانا اشرف علی، ڈاکٹر عتیق، قاضی حفیظ الرحمان ایڈووکیٹ اور مفتی عبدالرحمان نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو مسترد کردیا ہے۔ بین السطور پاک فوج پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے رہنماوں نے کہا کہ اب چار سال بعد یہ بیان داغ دینا واقعہ کے رخ کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ رہنماوں نے کہا کہ انہوں نے کب کہا کہ ہمارا قاتل شیعہ ہے، ہم کہتے ہیں جو قاتل ہے اسے سزا دی جائے۔ رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ ترجمان پاک فوج کی جانب سے انہیں اعتماد میں لیکر تمام ثبوت دکھائیں جن کی بنیاد پر پریس کانفرنس کی گئی۔ اگر ہمیں قائل کرلیا گیا تو ہمارے تحفظات دور ہوجائیں گے۔ 

یاد رہے کہ سانحہ راجہ بازار کے بعد کل 110 شیعہ افراد کو گرفتار کیا تھا، یہ گرفتاریاں جلوس کی ویڈیو دیکھ کر شناخت پریڈ کرکے کی گئی تھیں، بعد میں عدالت نے ان تمام 110افراد کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔خیال رہے کہ گرفتار افراد میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جس کا کوئی کریمنیل ریکارڈ موجود ہو، گرفتار افراد میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو بینک ملازم تھے، سرکاری ملازم تھے یا پھر طالب علم تھے، اسی ایف آئی آر میں کالعدم اہل سنت الجماعت {سپاہ صحابہ} سے تعلق رکھنے والے 9 پیش اماموں کا نام بھی درج تھا جن پر الزام تھا کہ یہ اپنی اپنی مساجد چھوڑ کر جامعہ تعلیم القرآن میں جمع ہوئے۔ ان 9 پیش اماموں سے فقط شکریال مسجد کے پیش امام تنویر عالم فاروقی کو گرفتار کیا گیا جو کالعدم جماعت راولپنڈی کا صدر بھی تھا تاہم بعد میں اسے بھی رہا کردیا گیا۔ تین سال پہلے ہی حساس اداروں کی طرف سے کہہ دیا گیا تھا کہ سپاہ صحابہ کے نو پیش اماموں کا جامعہ تعلیم القرآن میں جمع ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کسی سازش کا حصہ ہیں، یوں آئی ایس آئی نے اس پر مزید تحقیقات کیں تو اصل محرکات کھل کر سامنے آگئے جس کا زکر ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا۔
دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت اور رانا ثناء اللہ کے دباو پر اس ایف آئی آر میں تمام بانیان مجالس اور لائسنس ہولڈر کو نامزد کیا گیا حتیٰ کئی دہائیاں پہلے وفات پا جانے والے لائسنس ہولڈر شاہ چن چراغ جن کا راولپنڈی میں مزار بھی بنا ہوا ہے انہیں بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا۔ سید حفاظت علی شاہ کے پوتوں تک کو اس ایف آئی آئی آر میں نامزد کیا گیا جو سراسر ناانصافی اور تعصب کی بنیاد پر اقدام تھا۔ ان اقدامات کا مقصد عزاداری سید الشہدء کو محدود کرنا اور مرکزی جلوس کے روٹ کو ختم کرنا سمیت ملک گیر شیعہ سنی فسادات کرانے تھے، جو بھارت اور افغان دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کی دلی خواہش تھی۔تاہم مکتب تشیع نے ایک مرتبہ پھر اپنی حب الوطنی کو ثابت کرتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ یاد رہے کہ کالعدم جماعت اہل سنت والجماعت کے غنڈوں نے راولپنڈی کی پانچ امام بارگاہیں جلائی تھیں اور قرآن مجید کے نسخے تک نذر آتش کردئیے تھے۔ امام بارگاہوں کے نذر آتش کیے جانے کے دوران ایک بزرگ اہل سنت بھی شہید ہوگئے تھے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button