مقالہ جات

کشمیر کی تاریخ اور فرقہ واریت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کشمیریوں کی تاریخ  کا آغاز آزادی سے ہوتا ہے۔آپ شاید یہ جان کر حیران ہونگے کہ کشمیر کی  موجودہ غلامی مسلمانوں کی  باہمی فرقہ واریت اور مولویوں کے جھگڑوں کا نتیجہ ہے۔ 

✍ یہ۱۵۸۳ ؁  کی بات ہے کہ جب    یوسف شاہ چک کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ کشمیریوں کی باہمی فرقہ وارانہ جنگ کے نتیجے میں کشمیر کو اکبر بادشاہ کی غلامی قبول کرنی پڑی۔
مستند تاریخی دستاویزار کے مطابق کشمیر سے مولانا حضرات کے ایک وفد نے اکبر بادشاہ سے مل کر اسے کشمیر پر حملے کرنے اور پندوستان کا غلام بنانے کی دعوت دی تھی۔
چنانچہ اکبر بادشاہ نے پہلی مرتبہ کشمیر کو اپنا غلام بنایا اور
* اس کے بعد  کشمیر آج تک  غلامی کی زنجیروں میں جھکڑاہوا چلاآرہاہے۔*

پھر۱۷۵۳ میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر کو مغلوں سے چھین لیا  اوریوں کشمیری ،مغلوں کے بعد افغانیوں کے غلام بن گئے پھر ۱۸۱۸میں لاہور کے مہاراجے رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ  افغانیوں سے چھینااور پھر کشمیری رنجیت سنگھ کے غلام بن گئے۔

۱۸۱۸ء سے ۱۸۴۶ء تک یہاں سکھوں کی حکومت رہی۔9 مارچ 1846؁ء کو عہد نامہ لاہورکی دفعہ چہارکے تحت  جنگی اخراجات کی مد میں سکھوں نے  کشمیر  کو انگریزوں کے حوالے کیا اور ایک ہفتے کے بعد ہی انگریزوں نے کشمیر کی ریاست گلاب سنگھ کو نیلام کردی۔

کشمیر کی غلامی کی  ابتدا فرقہ واریت کے باعث ۱۵۸۳؁ سے ہوئی اور غلامی کی موجودہ داستان۱۹۴۷ سے  رقم ہوتی ہے۔اس پوری غلامی کی تاریخ میں کشمیری مسلسل آزادی کی جدوجہد کرتے رہے جس پر روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں۔

 راقم الحروف کی معلومات کے مطابق  ۱۸۴۶ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے  ریاستِ کشمیر معائدہ امرتسر کی رو سے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کی۔تاریخی اعتبار سے  اس وقت شمالی عالاقہ جات  کا علاقہ کشمیر کا حصہ نہ تھا بلکہ  متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں  مثلانگر‘ ہنزہ‘ کھرمنگ‘ خپلو‘ شگر‘ دیامر‘ خذر‘ سکردو‘ استوار اور گانچھے راجواڑے وغیرہ میں منقسم تھا۔۱۸۴۶ میں گلاب سنگھ نے ان چھوٹی موٹی ریاستوں کو طاقت کے زور پر کشمیر میں شامل کیا۔ اس طرح ۱۸۴۶ء  کے بعد ۱۹۴۷ء تک کشمیر پر گلاب سنگھ کی نسل  اور باقیات ہی  حکمران رہی۔

کشمیر پر  ہندوستان کے قبضے کے اصلی مجرم

الف۔پنڈت نہرو
——”’———–
۱۹۴۷  میں ہندوستان میں ہندوستانیوں کی طرف سے  برطانیہ کے خلاف ایک بہت بڑی  فوجی بغاوت متوقع تھی۔یعنی  برطانیہ کے خلاف ہندوستان میں سوسال کے اندر دوسری بڑی فوجی بغاوت ہونے والی تھی ،اس سے پہلے  بھی برطانوی حکومت ۱۸۵۷ کی فوجی بغاوت کا مزہ چکھ چکی تھی لہذا حکومت کوشش کررہی تھی کہ اسے مزید کسی فوجی بغاوت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس متوقع  فوجی بغاوت کو ٹالنے کے لئے ۲۲ مارچ ۱۹۴۷ کو  لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔

 18 مئی 1947ء  کو لارڈبیٹن اپنی رپورٹ مرتب کرکے واپس لندن روانہ ہوگئے۔لندن میں لارڈ ماونٹ بیٹن کی رپورٹ پر سیر حاصل بحث ہوئی جس کے بعد انہیں ۳۰مئی ۱۹۴۷ء کو  پھر ہندوستان بھیج دیاگیا۔

2 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن اور ہندوستان کی سیاسی شخصیات کے درمیان ایک  اجلاس منعقد ہوا جس میں لارڈ نے مقامی سیاسی رہنماوں کو اپنی رپورٹ اور تجاویز سے آگاہ کیا۔۳جون کولارڈ ماونٹ بیٹن نے  آل انڈیا ریڈیو سے اپنی تقریر میں آزادی اور تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا جسے ’’جون تھری پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔

 اس تقریر میں انہوں نے تسلیم کیا کہ  مسئلہ ہندوستان کا حل تقسیم ہندوستان ہی ہے۔۳جون کی شام کو ہی  برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی نے بی بی سی لندن سے اعلان کیا کہ ہندوستانی رہنما متحدہ ہند پلان کے کسی حل پر متفق نہ ہو پائے لہٰذا تقسیم ہند ہی واحد حل ہے۔ یوں 3 جون 1947ء کو  پہلی مرتبہ سرکاری طور پر مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت کے فلسفے پر خط بطلان کھینچ دیاگیا۔

’’جون تھری پلان‘‘ کی رو سے  ہندوستان میں واقع  برطانیہ کے زیر انتظام تمام ریاستیں  ہندو یا مسلمان ہونے کے ناطے ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا اختیار رکھتی تھیں۔موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جواہر لال نہرو نے  کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔مسٹر نہرو کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسراے بنوانے میں ان کا کلیدی رول تھا اور بعد ازاں ان کی ماونٹ بیٹن سے دوستی رنگ لائی اور کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوسکا۔

تقسیم ہند کے وقت  حکومت برطانیہ کی طرف سے سرحد کمیشن کا چیئرمین ریڈ کلف کو منتخب کیا گیا۔لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے زمانہ طالب علمی کے  کالج کے ساتھی ریڈ کلف  کو مسٹر نہرو کی  منصوبہ بندی کے مطابق  مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔
یاد رہے کہ ریڈکلف اس سے پہلے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا اور ہندوستان کے بارے میں اس کی معلومات فقط سننے سنانے کی حد تک تھیں۔ چنانچہ وہ لارڈ ماونٹ بیٹن کی ہدایات پر ہی عمل کرنے پر مجبور تھا۔

اگرچہ لارڈمائونٹ بیٹن کے وائسرائے مقرر کروانے سے مسٹر نہرو تقسیم ہند کو تو نہیں رکوا سکے البتہ  انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈکے ذریعے مسلم اکثریتی ضلع گرداسپور کی تین تحصیلیں بھارت میں شامل کرانے میں ضرور کامیابی حاصل کی جس کے باعث کشمیر میں بھارتی فوجوں کی مداخلت ممکن ہو گئی ۔

بلاشبہ  اگر تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور پاکستان کے حوالے کر دیا جاتا تو بھارت ، پاکستان کےخلاف کشمیر میں کبھی بھی جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔تاریخی شواہد سے پتہ چلتاہے کہ مسٹر نہرو ،لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ہندوستان کو سنکیانگ تک پھیلانا چاہتے تھے۔ان کی اس کوشش کو شمالی علاقہ جات کی غیور عوام نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔
اسی طرح  ریڈکلف کی طرف سے ضلع مالدہ,مرشدآباد,کریم گنج  اور حیدر آباد کی طرح متعدد مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کو  ہدئیے میں دے دئیے گئے۔

ب:۔ مہاراجہ ہری سنگھ ڈوگرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

24 اکتوبر ۱۹۴۷کو  کشمیر کے آخری مہاراجے ہری سنگھ نے بھارت سے فوج منگوائی اور ۲۷ اکتوبر کو انڈین آرمی کی ایک سکھ بٹالین طیاروں کے ذریعے بھارت سے سرینگر پہنچی ۔
? اس صورتحال میں  کشمیریوں نے مایوسی کے بجائے تحریک آزادی کا اعلان کردیا۔
اس تحریک کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ  مہاراجےکے تسلط سے آزاد ہوگیا جسے ہم آزاد کشمیرکے نام سے جانتے ہیں اور باقی حصے میں تحریک آزادی ہنوز چل رہی ہے۔

مسئلہ کشمیر کا اصلی مجرم کون!؟

تاریخی  شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر پر قبضہ کرنا گاندھی جی کی خواہش نہیں تھی بلکہ پنڈت نہرو  اور مہاراجہ ہری سنگھ کا خواب تھا۔

پنڈت نہرو چونکہ خود کشمیری برہمن تھے لہذا برہمن ہونے کے ناطے ان کی پوری کوشش تھی کہ ان کا آبائی وطن ہندوستان میں شامل ہو۔
اسی طرح پاکستان میں شامل ہونے کی صورت میں مہاراجے کو اپنے اقتدار کے باقی رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھیچنانچہ اس نے بھی اپنا مفاد اسی میں دیکھا کہ ہندوستان کو حملے کی دعوت دی جائے۔
المختصر یہ کہ دونوں مذکورہ کرداروں نے اپنے پنے مفاد کے لئے ہندوستان کو استعمال کیا اور ہندوستانی فوجوں کو کشمیر میں لاکر پھنسایا۔

? سلامتی کونسل کا کردار

 دسمبر 1947ء کے آخرمیں  ہندوستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا اور یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے وہاں پر رائے شماری کی قرارداد منظور کی۔

بھارت نے 3جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ واویلا مچایا کہ کشمیر میں جاری بغاوتیں پاکستان کی ایما پر کی جارہی ہیں،چنانچہ سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو کشمیر میں غیر جانبدار مبصر کی زیر نگرانی استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کا فیصلہ کیا اور بھارت و پاکستان کو ہدایت کی کہ دونوں پانچ ماہ کے اندر رائے شماری کی تیاری کریں۔
پھر اس کے بعد وہ پانچ ماہ ابھی تک نہیں آئے۔
یہ ہے کشمیر کی غلامی کی ابتدا سے لے کر موجود تحریک ِ آزادی کا مختصر پسِ منظر ،اس پسِ منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت راہِ حل کے طور پر چند نکات پیشِ خدمت ہیں ۔:

⭕ مجوزہ راہِ حل:۔ ⭕

۱۔کشمیر در اصل  مسلمانوں کی باہمی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا ہے ، قرآن مجید نے بھی مسلمانوں کو تحاد اور اتفاق کا حکم دیا ہے، اگر ابتدا میں اہلیان کشمیر فرقہ پرستی کی بھینٹ نہ چڑھتے اور کشمیر  مغلوں کی غلامی میں نہ جاتا  تو  نوبت یہانتک نہ پہنچتی۔آج بھی اگر کشمیری ،غلامی سے نجات چاہتے ہیں تو انہیں  فرقہ واریت سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا۔فرقہ وارانہ سوچ کشمیریوں کو کمزور تو کرسکتی ہے لیکن مضبوط نہیں۔

۲۔ آزادی ہر انسان کافطری اور جمہوری حق ہے ،دنیا کی تمام باشعور اقوام اور ادارے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں،لہذا کشمیریوں کو اپنی تحریک آزادی کی نظریاتی بنیادوں  کو کھل کر بطریقِ احسن بیان کرنا چاہیے اور ہندوستانی تنظیموں،سیاسی پارٹیوں ،دانشمندوں اور مختلف مذاہب و مسالک کے رہنماوں تک اپنے  اس پیغام کو بطریقِ احسن پہنچانا چاہیے کہ وہ ہندوستان کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کررہے بلکہ اپنی سر زمین کی آزادی کے لئے کوشاں ہیں۔اس حقیقت کو خود ہندوستانیوں کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ  کشمیریوں کی تحریک آزادی ہندوستان کے خلاف نہیں بلکہ خود کشمیریوں کی آزادی کے لئے ہے۔

خصوصا ً اس مسئلے کو ٹھوس شواہد کے ساتھ  بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا فیصلہ گاندھی جی کا نہیں تھا اور نہ ہی ہندوستان اپنی فوجیں زبردستی کشمیر میں داخل کرنے کا خواہاں تھا۔

 یہ سار اکھیل  پنڈت نہرو اور مہاراجے کا تھا اوریہ دونوں خود کشمیری تھے۔ان کے بلانے پر ہندوستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں اور پھر وہاں پھنس گئیں ،لہذا ہندوستان کی طرف سے اس مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر طول دینا اور ڈٹ جانا کسی طور بھی دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔

۳۔اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی  کاغذی قراردادیں اب کشمیریوں کے کام آنے والی نہیں۔
اب اہلیانِ کشمیرکو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ فیصلے حکومتیں نہیں بلکہ ملتیں کرتی ہیں،یہ جمہوری دور ہے ،عوامی طاقت ہی اصل طاقت ہے،مسئلہ کشمیر کو میڈیا کے ذریعے دیگر ملتوں تک مسلسل پہنچایا جانا چاہیے اور ان سے مدد کی درخواست کی جانی چاہیے۔ضروری ہے کہ دنیا کے اطراف و کنار میں  انسانی حقوق کی بنیاد پر اس مسئلے کو پوری طاقت کے ساتھ اٹھایاجائے۔یعنی عالمی سطح پر بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔

۴۔مسئلہ کشمیر ایک قانونی  اور سیاسی مسئلہ ہے جو ریڈکلف سمیت چند خواص کی بددیانتی  کی وجہ سے پیش آیا لہذا اسے قانونی اور سیاسی  طور پر ہی حل ہونا چاہیے۔ دہشت گردی، شدت پسندی،بد اخلاقی ، اور  خون خرابے کو ہر انسان ناپسند کرتاہے۔لہذا تحریکِ آزادی کشمیر کو کسی طور بھی دہشت گرد ٹولوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے۔یہ جنگ سیاسی اور قانونی بنیادوں پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑی جانی چاہیے۔

۵۔دنیا میں ہر جگہ شدت پسند اور دہشت گرد ٹولے پائے جاتے ہیں۔مثلا عراق ،پاکستان اور افغانستان کو ہی لے لیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پوری قوم کو ہی دہشت گرد  قرار دے دیاجائے اور  امت مسلمہ کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے۔اسی طرح کشمیر میں بھی دہشت گردی کے واقعات  ہوتے رہتے ہیں۔ ہمیں جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا چاہیے اور  سارے اہلیانِ کشمیر کو دہشت گرد نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی دہشت گردی کا بہانہ بنا کر  ملت کشمیر کو  ہندوستان کے  رحم و کرم پر چھوڑنا چاہیے۔

۶۔جو قوم فکری طور پر شکست قبول کرلیتی ہے اسی عملی میدان میں شکست دینا آسان ہوجاتاہے۔کشمیر کے خواص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملت کشمیر کو  ہندی فلموں کے ثقافتی اثرات  سے محفوظ بنائیں ،انہیں چاہیے کہ اہلیانِ کشمیر کو اسلامی شناخت اور عالمی اسلامی تحریکوں اور شخصیات  سے جوڑے رکھیں۔

خصوصا قیامِ پاکستان کی تاریخ، ایران میں اسلامی انقلاب کی تاریخ، فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی تاریخ اور کامیابیوں سے کشمیریوں کو  آگاہ کیا جائے  تاکہ ان کی ہمت اور حوصلہ بلند رہے۔

۷۔کشمیری اپنی غلامی کے ابتدائی دور سے ہی  غلامی پر رضامند نہیں ہوئے، سو آزادی کی جنگ وہ مسلسل نسل در نسل لڑتے چلے آرہے ہیں۔آزادی کی اس شمع کو جلائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کوپاکستان اور کشمیریوں کے  نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔تاکہ کشمیر  اور پاکستان کی  نسلِ نو اس مسئلے کی نظریاتی بنیادوں کو فراموش نہ کرے۔اسی طرح فنون لطیفہ ،شعرو شاعری اور ناول و افسانے کے ذریعے بھی اس مسئلے کونسل در نسل  آگے منتقل کیاجائے۔

۸۔تمام اسلامی مناسبتوں خصوصا ایامِ حج کے موقع پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ، آزادی کشمیر کے لئے سیمینارز اور اجلاس منعقد کئے جائیں اور کشمیر کے مسئلے کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے  مکے اور مدینے میں حج کی خاطر جمع ہونے والی عالمی اسلامی برادری تک پہنچایاجائے۔

بالاخر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے ہندوستان کو تسلیم کرلینا چاہیے  کہ  “جو ملت غلامی پر رضامند نہ ہو اسے غلام نہیں رکھا جاسکتا”۔

استفادہ

۱۔تحریک آزادی کشمیر از پروفیسر خورشید احمد              
 ۲۔کشمیر اینڈ پارٹیشن آف انڈیاڈاکٹر شبیر چوہدری انگلش ایڈیشن

۳۔ششماہی سنگر مال تحقیقی مجلہ پنجاب یونیورسٹی لاہور    
۴۔مطالعہ کشمیر از پروفیسر نذیر احمد

۵۔تاریخ کشمیر یعنی گلدستہ کشمیر از پنڈت ہرگوپال خستہ[آن لائن]https://archive.org/stream/tarikhikashmir00khas#page/n0/mode/2up

۶۔A brief history of the Kashmir conflict

http://www.telegraph.co.uk/news/1399992/A-brief-history-of-the-Kashmir-conflict.html

۷۔Kashmir: Roots of Conflict, Paths to Peace

by Sumantra Bose

۸۔The Challenge in Kashmir: Democracy, Self-Determination and a Just Peace

by Sumantra Bose

 

متعلقہ مضامین

Back to top button