مقالہ جات

عوام بے شعور نہیں، اوریا مقبول و دیگر جھوٹ بولتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صابر صدیق رند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( محترم قارئین میں نے یہ تحریر نیٹ بر پڑھی تھی پھر اس میں کچھ ترمیم کی ہے۔)

ایک طرف تو بعض سیاستدان، کچھ مولوی اور چند میڈیا پرسنز مسلسل عوام سے جھوٹ بول رہے ہیں  اور دوسری طرف ہم سب کو عوام سے گلہ ہے کہ ہمارے عوام بے شعور ہیں۔

مجھے گلہ ہے محترم خورشید ندیم سے لے کر جناب مقبول اوریا جان تک ہر اس شخص سے جو متعصب ملاوں کی طرح عوام سے جھوٹ بولتا ہے، اور قومی و بین الاقوامی مسائل کو مسلکی اور فرقہ وارانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔

اس طرح کے فرقہ پرست لوگوں نے عوام سے جھوٹ بولا کہ جنرل راحیل شریف مقدس مقامات کے تحفظ کے لئے سعودی فوجی اتحاد کے کمانڈر بنے ہیں۔ جہاں تک سعودی عرب کے مقدس مقامات کا تعلق ہے تو دنیا کا ہر مسلمان ، سعودی عرب سے عشق کرتا ہے، یہ عشق بلا وجہ نہیں ہے بلکہ سعودی عرب سے مسلمانوں کے عشق کی بنیادی وجہ وہاں پر پائے جانے والے مسلمانوں کے مقدس مقامات ہیں۔

جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کی کمان سنبھالی تو  انہی مقدس مقامات کے دفاع کی وجہ سے اہلیانِ پاکستان کو بہت خوشی ہوئی۔

انہی مقدس مقامات کی وجہ سے ،سعودی حکمرانوں کو خادم الحرمین شریفین کہا  جاتا ہے، انہی مقدس مقامات کی وجہ سے سعودی عرب کو عالم اسلام کا قلب کہا جاتا ہے، انہی مقدس مقامات کی وجہ سے سعودی عرب کے بنائے ہوئے فوجی اتحاد کو عالم اسلام کا فوجی اتحاد کہا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ ہمارے میڈیا میں اور ہمارے بعض مولوی حضرات کی طرف سے لکھائی، دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔ لیکن آئیے آج  حق گو  میڈیااور غیرجانبدار علمائے کرام  سے پوچھتے ہیں کہ وہ مقدس مقامات کس حال میں ہیں جن کی وجہ سے دنیائے اسلام، سعودی عرب سے عشق کرتی ہیں !؟

آئیے ان علمائے کرام سے پوچھتے ہیں کہ جو نہ شیعہ ہیں اور نہ ہی وہابی یا دیوبندی، ان سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ کیا یہ سچ ہے کہ   مکے اور مدینے میں حضور نبی اکرم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ  کے پیارے اور جلیل القدر اصحابؓ کے  تاریخی آثار اور ان کی نورانی قبور کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے!؟

آئیے ان غیرجانبدار علما سے پوچھتے ہیں کہ وہ مقدس مقامات جن کی وجہ سے دنیائے اسلام ، سعودی عرب کو قلبِ اسلام سمجھتی ہے ، جب ان پر کوئی مسلمان پہنچ جاتا ہے تو اسے ان مقامات کو چومنے اور چھونے تک کی اجازت نہیں دی جاتی!؟

آئیے ہم فریق ثالث کے علما جو شیعہ یا وہابی و دیوبندی نہیں ہیں ان سے پتہ کرتے ہیں کہ وہ مقدس ہستیاں جن کا وطن ہونےکی وجہ سے ہم سعودی عرب  کے بھی تقدس کے قائل ہیں، آج  ان ہستیوں کی مقدس قبور کا نام و نشان مٹا دیا گیاہے یا موجود ہے!؟

اگر آپ فریقِ ثالث کے علمائے کرام سے بھی نہیں پوچھنا چاہتے تو پھر حج کرکے آنے والے اپنے حاجی بھائیوں سے پوچھئے ، یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کادور ہے، انٹرنیٹ پر بیٹھئے اور خود تحقیق کیجئے کہ سعودی حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں ان مقدس مقامات کے ساتھ کیا کیا ہے!

جنت البقیع میں سرکارِ دوعالم کے اصحاب اور ان کی آل و اولاد  کے مزارات کی توہین کی گئی اور منہدم کر دئیے گئے۔جدہ میں مقبرہ حوا کو کنکریٹ سے بند کر دیا گیا ، دار الارقم نامی وہ پہلی درسگاہ جس میں نبی پاک نے تعلیم دی ، مدینہ میں بی بی فاطمہ کا گھر ،مدینہ میں امام جعفر صادق کا گھر ، بنو ہاشم کا محلہ  صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا،  ١٩٩٨ میں ہمارے پیارے  نبیﷺ کی والدہ بی بی آمنہ کے مقبرے اور قبر کو گرانے کے بعد نظر آتش کر دیا گیا ، مدینے میں نبی ﷺکے والد مکرم حضرت عبداللہ  کی قبر مٹادی گئ ، حضرت  امام علی کرم اللہ وجہ  کا وہ گھر جس میں امام حسن اور امام حسین کی ولادت ہوئی مٹادیاگیا ، وہ گھر جس میں  ٥٧٠ میں اللہ کے آخری  نبی کی ولادت ہوئی ، اس گھر کو  گرانے کے بعد اسکو مویشی بازار میں منتقل کر دیا گیا ،پیارے نبی کی پہلی زوجہ، بی بی خدیجہ کا گھر جہاں قرآن مجید  کی کچھ پہلی آیات کا نزول ہوا،وہاں پر غسل خانے بنا دئیے گئے ،مکّے سے ہجرت کے بعد مدینہ میں جس گھر میں نبی اکرم نے قیام کیا تھا اس گھر کو گرادیاگیا، حضرت حمزہ کی قبر سے منسلک مسجد گرادی گئ، مسجد فاطمہ زہرا ، مسجد المنارا تین  اور امام جعفر صادق کے بیٹے سے منسوب مسجد اور مزار کو ٢٠٠٢ میں گرایا گیا ، مدینہ میں جنگ خندق سے منسوب ٤ مساجد ، مسجد ابو رشید ، سلمان الفارسی مسجد مدینہ ، رجعت اشمس مسجد مدینہ ، مدینہ میں مسجد جنت البقیہ  اور  مکّے میں جنّت الموللہ  گرا دی گئیں، اسی طرح فرزند رسول حضرت موسیٰ کاظم کی والدہ کی قبر  اور  مکّہ میں بنو ہاشم کی قبریں بالکل مٹا دی گئیں، احد کے مقام پر حضرت حمزہ اور باقی شہدا کے مقبروں کو منہدم کر دیا گیا۔

میں صرف اس وقت جنت البقیع کے قبرستان کی عظمت اور تقدس کے حوالے سے اتنا بتا تا چلوں کہ صرف اس قبرستان میں  دس ہزار سے زیادہ  رسول ﷺ کے جلیل القدر اصحاب رسول مدفون تھے۔ ان میں سے چند ایک کے نام پیش کر رہاہوں،  بیت، اُمّہات المومنین، فرزند رسولؐ حضرت  ابراہیم، رسولؐ کے چچا  حضرت عباس ، پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطّلب، خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی اور سینکڑوں اکابرین اُمت اور تابعین شامل ہیں۔ اس قبرستان کی عظمت و تقدس کے کیا کہنے کہ جو ، ہجرت کے بعدشہر مدینہ کے مسلمانوں کیلئے دفن ہونے کا واحد قبرستان تھا۔

اگریہ کسی ایک مسلک یا فرقے کی  مقدس شخصیات ہوتیں تو راقم الحروف کبھی بھی اس مسئلے میں نہ پڑھتا ،یہ تو  مکمل طور پر  اسلام کی تاریخ تھی جسے مسل دیا گیا ہے۔

ہمارا یہ سوال ہے سعودی حکمرانوں اور ان کے طرفداروں سے کہ  آپ کے نزدیک قبریں تعمیر کرنا بدعت ہے تو پھر کیا یہ بڑے بڑے شیش محل، پلازے ، ہوٹل اور عشرت کدے تعمیر کرنا نعوز باللہ سنّت ہے۔

آپ امام کعبہ سے یہ سوال کر کے دیکھیں کہ اگر اولیائے خدا کی قبور پر گنبد کی تعمیر بدعت ہے تو پھر آپ نے نعوز باللہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی قبرِ اطہر کا گنبد کیوں نہیں گرایا!؟

جب آپ  رسول اکرم ﷺ کے مزار پر گنبد  کے بارے میں سوال پوچھیں گے تو تب  آپ کو پتہ چل جائے گا کہ سعودی عرب کے حکمران حرمین شریفین کا کتنا احترام کرتے ہیں  کیونکہ اگر امت مسلمہ کہ دباو و احتجاج کا خطرہ نہ ھوتا تو سعودی کب کا رسول اکرم (ص) کا گنبد تو کیا قبر مطہر بھی ڈھا دیتے۔
آج کہ دور ابلاغ میں کتنے بھی خورشید ندیم ، اوریا جان مقبول ، احمد قریشی قوم کو گمراہ کرنے کی کو شییش کرلیں لیکن امت مسلمہ جان چکی ھے کہ امریکیوں و اسرائیلیوں کی سرپرستی میں بننے والا امریکی-سعودی فوجی اتحاد اسرائیل یا ھندوستان کہ خلاف نہیں بلکہ اسکا اصل ھدف مظلوم مسلمان ھیںُ۔ اس کا مقصد فلسطین کاز کو نقصان پہنچانا ھے ، ایران کہ خلاف محاذ بنانا ھے ، قطر کو دھمکیاں دے کر اسکی فلسطین حمایتی پالیسی کو تبدیل کرنا ھے ، حزب اللہ و حماس کو دہشتگرد قرار دینا ھے کیونکہ دونوں اسرائیل کہ لیے خطرہ ھیں اور اخوان المسلمین کو دہشتگرد قرار دے کر ‘ اسلام حقیقی ‘ کو ضرب لگانی ھے تاکہ ان عرب عیاش شیوخ کی بادشاھت ( عیاشیوں ) کو دوام دیا جسکے ۔

المختصر یہ کہ بحیثیت پاکستانی یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم جھوٹ بولنے والوں کے مقابلے میں سچ بولیں۔یہ جولوگ مسلکی جنگ کی کہہ کر سچائی کو چھپاتے ہیں انہیں بے نقاب کیا جانا چاہیے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم خدا کی بارگاہ میں غیر مسلکی اور غیرجانبدارانہ بات کریں اور عوام کو بتائیں کہ وہ مقدس مقامات کس حال میں ہیں جن کے دفاع کرنے کا جھوٹ بولا جارہاہے۔

نوٹ : ادارے کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ھونا ضروری نہیں ۔ مضمون کہ موضوع کی مناسبت سے قارئین کی دلچسپی کہ لیے شائع کیا گیا ھے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button