سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کو روکنا حکومت کا فرض ہے، تجزیہ کار
شیعیت نیوز: سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کو حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد روکنے کیلئے حکومت کو جو اقدام ضروری ہو کرنا چاہئے، اگر تمام اسلامی ممالک مل کر لائحہ عمل بنائیں تو فیس بک پر دباؤ بڑھ سکتا ہے،اگر سوشل ویب سائٹس پر توہین آمیز مواد پایا جاتا ہے تو انہیں بند کرنا ہی بہتر حل ہوگا،سوشل میڈیا کو بند کرنا ایسا لگتا ہے جیسے قاتل کے بجائے آلہ قتل کو پھانسی چڑھادی جائے۔ان خیالات کا اظہار امتیاز عالم، حسن نثار، رانا جواد، بابر ستار، مظہر عباس اور شہزاد چوہدری نے جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد! عدالتی پابندی کا اشارہ اور عمران خان کا احتجاج! حل کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کو روکنا حکومت کا فرض ہے، حکومت کو اس کیلئے جو اقدام ضروری ہو کرنا چاہئے، اگر تمام اسلامی ممالک مل کر لائحہ عمل بنائیں تو فیس بک پر دباؤ بڑھ سکتا ہے، توہین آمیز مواد پر ہر صورت میں پابندی لگنی چاہئے، اگر سوشل ویب سائٹس پر توہین آمیز مواد پایا جاتا ہے تو انہیں بند کرنا ہی بہتر حل ہوگا،حکومت کسی ایسی چیز کی اجازت نہیں دے سکتی جس سے ملک میں بدامنی کا خطرہ ہو، عمران خان سوشل میڈیا پر پابندی کا سیاسی پہلو بھی دیکھ رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ حکومت توہین آمیز مواد کی آڑ میں سیاسی مواد پر بھی پابندی عائد کرسکتی ہے۔
حسن نثار کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کو حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، سوشل میڈیا کو بند کرنا ایسا لگتا ہے جیسے قاتل کے بجائے آلہ قتل کو پھانسی چڑھادی جائے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ باقی عالم اسلام توہین آمیز مواد پر کیا ردعمل دے رہا ہے، ہمیں اہل حجاز، امام کعبہ اور جامعہ الازہر کا اس بارے میں خیال جاننا ہوگا، توہین آمیز مواد کیخلاف سوشل میڈیا پر پابندی لگانا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔
رانا جواد نے کہا کہ گستاخانہ مواد پر سوشل میڈیا بند کرنے کا اختیار ایک شخص، سیاسی جماعت یا ادارے کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا ہے،ہمیں توہین آمیز مواد سے متعلق باقی مسلمان ملکوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے لائحہ عمل بنانا ہوگا، سوشل میڈیا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرنے کے ساتھ ہمیں توہین آمیز مواد جاری کرنے والے لوگوں سے اس قدر نفرت کا اظہار کرنا ہوگا کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوسکے۔
شہزاد چوہدری نے کہا کہ توہین آمیز مواد پاکستان کے معاشرے میں انتشار کا باعث بن سکتا ہے، حکومت سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کے معاملہ کو اسی طرح نہیں چھوڑ سکتی ہے، چوہدری نثار نے توہین آمیز مواد کے معاملہ پر مسلم ممالک کے سفیروں کو بلا کر چھوٹا قدم اٹھایا ہے، توہین آمیز مواد کے معاملہ کو او آئی سی کی سطح پر اٹھاتے ہوئے تمام اسلامی ممالک کو متفقہ موقف اختیار کرنا ہوگا، پی ٹی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کو توہین آمیز مواد کا فوری نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ ویب سائٹس کو رپورٹ کرنی چاہئے۔
بابر ستار کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک توہین رسالت کا مواد عالمی سطح پر نفرت انگیز مواد کی فہرست میں شامل کروائیں، ایسا ہوجاتا ہے تو سوشل میڈیا ویب سائٹس شکایات کرنے پر ایسے مواد کو ہٹانے پر آمادہ ہوجائیں گے، اگر کوئی شخص پاکستان سے توہین آمیز مواد اپ لوڈ کرتا ہے تو اسے پکڑنے کیلئے تحقیقاتی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔امتیازعالم نے کہا کہ سوشل میڈیا پر موجود پاکستانی اور مسلمانوں کو فوری طور پر فیس بک انتظامیہ کو توہین آمیز مواد سے متعلق شکایات درج کروانی چاہئیں، جس کے بعد چوبیس گھنٹے میں نفرت انگیز مواد کو ہٹانا فیس بک کی ذمہ داری ہوگی۔