پاکستان

پانچ ہزار چینی ایغور داعش میں شامل ہیں

مسلسل یہ خبریں موصل ہورہیں تھیں کہ ہمسائیہ ملک چین کی پاکستان سے ملحق سرحدی علاقے شنگیانگ اور ارمچی سے تعلق رکھنے والے ایغورقبیلے کے وہ جوان جو عرب ممالک اور ترکی کے دینی مدارس میں پڑھ رہے ہیں ،شدت پسندی کی جانب راغب ہورہے ہیں ۔

حال ہی میں شام و عراق میں موجود داعش دہشتگردوں کی صفوں کے درمیان پانچ ہزار ایغوری دہشتگردوں کا انکشاف ہوا ہے اور اس انکشاف کو خود انہوں نے اپنی تشہیراتی وڈیو کلیب اور دھمکی آمیزبیانات کے توسط سے ہی کیا ہے ۔

گرچہ دو روسی فوجیوں کو وحشیانہ انداز سے قتل کرنے والے ترکمن نژاد ایغوری بچہ اور اس کے دہشتگرد باپ کی وڈیو کلیب نے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کو واضح پیغام دیا تھا کہ چین کے صوبے پاکستان سے متصل علاقے شیگیانگ ،کاشغر اور

ارومچی میں شدت پسندانہ خیالات جنم لے رہے ہیں لیکن حال ہی میں خود ایغوریوں کی جانب سے نشر کردہ وڈیو میں واضح طور پر دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ ان کی تعداد تین سے پانچ ہزار تک ہے ۔

شام میں موجود اکثر ایغوری اپنی خاندانوں کے ساتھ ترکی کے مختلف شہروں سے بھیجے گئے ہیں جو کافی سالوں سے وہاں پناہ گذین اور مہاجر کےطور پر موجود تھے

یہ وہ ایغوری ہیں جن کا کہنا ہے کہ چین کے ظلم و ستم کے سبب وہ اپنی ترک اقوام کے پاس پناہ کی غرض سے آئے ہیں ،واضح رہے کہ ایغوری اصل میں ترک نسل ہیں اور ان کی زبان بھی بگڑی ہوئی ترکی ہے
کہا جاتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ایغوری مختلف عرب ممالک خاص سعودی عرب کے دینی مدارس میں پڑھتے ہیں اور جو سوشل میڈیا اور ویب سائیڈ کے توسط سے باھم ایک نیٹ ورک کی شکل میں چین میں موجود اپنے ہم فکر و خیال ایغوریوں کے ساتھ جڑے رہتے ہیں ۔

ترک نژاد ایغوری شدت پسندوں کی موجودگی پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پائی جاتی ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ شام میں داعش کا گڑھ شہر رقہ میں ایغوری چینی شدت پسندوں کے لشکر کو ابوعبیداللہ الصینی یعنی چینی کمانڈ کرتا ہے جس میں نوعمر بچے اور بڑھے تک شامل ہیں ،نشر ہونے والی وڈیو کلیب کے مطابق وہ بار بار اس نعرے کو دہراتے ہیں کہ چینی میں موجود ایغورعلاقے کی آزادی اور خودمختاری چاہتے ہیں

عرب میڈیا کے مطابق ایغوری شدت پسندوں کی ممکنہ طور پر چاینہ میں واپسی سمیت دیگر سیکوریٹی مسائل کو لیکر چاینہ حکومت اور شام کے درمیان کئی بار معلومات اور وفود کا آنا جانا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔

اہم ترین بات پاکستان کے قریب ہونے سبب گلگت بلتستان کی حکومت کو چاینہ سرحدسے ممکنہ شدت پسندوں کی کسی بھی قسم کی دہشتگردی کے حوالے سے پہلے سے ہشیار رہنا ہوگا تاکہ کسی بھی قسم کے حادثے سے بروقت بچنے کا اقدام کیا جاسکے ،خاص کر سی پیک جیسے اہم پروجیکٹ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس موضوع کے بارے میں آسانی کے ساتھ آنکھیں بند نہیں کیا جاسکتا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button