مقالہ جات

داعش کا اگلا ہدف کون؟

داعش یعنی ’’دولۃ الاسلامیہ عراق وشام‘‘ یعنی یہ وہ مقصد تھاکہ جس کےحصول کےلیے اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کےمطابق دنیا بھر کے 80 سےزائد ممالک سےدہشت گردوں نے پہلے شام کارخ کیا اور پھر عراق میں جادھمکے اوران کامقصد تھا کہ عراق اور شام میں اسلامی حکومت یاخلافت کانظام رائج کیا جائے اوراس کام کےلیے انہوں نےاپنا ایک خلیفہ منتخب کیا کہ جس کانام ابو بکرالبغدادی تھاکہ جوماضی میںعراق میں امریکی زیرانتظام قائم جیلوں میں سی آئی اے سے تربیت پاتا رہا اورپھر امریکہ اوراسرائیل کی اسکیم کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کےلیے داعش کا سربراہ بن بیٹھا، میں جب بھی داعش لکھتا ہوں یاپڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آخر دولۃ الاسلامیہ عراق وشام ہی کیوں؟ دولۃ الاسلامیہ تو تمام مسلمان ممالک میں ہونی چاہیئے تھی اورپہلے توان ممالک کےاندر بہت شدت سےاس کی ضرورت محسوس کی جانی چاہیئے کہ جہاں پرمطلق العنان بادشاہتیں موجود ہیں،تو پھر ایسا کیوں ہےکہ صرف شام اورعراق میں؟ بہر حال یہ سوال یقیناً میری طرح لاکھوں کروڑوں اذہان میں موجود ہوگا۔لیکن اس کاجواب ابھی تک آنا باقی ہے۔
داعش کا وجود جوسب سےپہلے شام میں نمودار ہوا اورپھر پانچ سال تک نہ صرف امریکہ اوراسرائیل نےاس دہشت گرد گروہ کی مدد کی بلکہ خطے کی عرب بادشاہتیں بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہ تھیں اورسب کاہدف یہی تھاکہ بس شام کی حکومت کاتختہ الٹ دیا جائے اورداعش کی نام نہاد اسلامی خلافت کاقیام عمل میں لایا جائے اوربعد میں شام اورعراق جیسے ممالک کوتین تین ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے تاکہ خطے میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ یقینی ہو اوراسرائیل کےخلاف اٹھنے والی کسی بھی مزاحمت کودبایا جائے اورمظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو گھونٹ دیا جائے۔ بہرحال شام میں پانچ سال کے عرصے میں ان مغربی اور عر بی حمایت یافتہ دہشت گردگروہوں بالخصوص داعش نےبہت بڑے پیمانے پر خونریزی کابازار گرم کیے رکھا لیکن بالآخر شامی افواج کی انتھک کوششوں کےنتیجے میں شام کامشہور معرکہ جسے ’’حلب‘‘ کےعنوان سےپہچانا جاتا ہے وہ بھی شامی افواج کےہاتھوں فتح ہوا ہے اورداعش کوذلت آمیز اوربدترین شکست اوررسوائی کاسامنا کرنا پڑا ہے،خبریں یہاں تک بھی ہیں کہ بھاگنے والے داعشی دہشت گرد خواتین کےحلیوں اورلباسوں میں بھاگتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔
شام کا شہر حلب کہ جوگزشتہ کئی برس سےداعش کےشکنجے میں تھا اوراب آزاد ہوچکا ہے اورعالمی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبروں میں بتایا جاچکا ہے کہ روس ، چین، ایران، شام کےبےمثالی اتحاد کے بدولت شام کو یہ فتح نصیب ہوئی ہے اورپورے شام پراب شامی حکومت کا مکمل کنٹرول ہے۔یہ بات شام سے باہر دیگر ممالک میں بالخصوص پاکستان میں داعش کےحامی اورداعشی فکر کے لوگوں کوبڑی ناگوار گزررہی ہےکہ شام پانچ سال کے بعد بالآخرمضبوط انداز میں موجود ہےاورداعش سمیت ان کےامریکی،اسرائیلی اورعرب آقاؤں کےخواب چکنا چورہوگئے ہیں تواب صورت حال یہ ہےکہ حلب کی فتح پرجہاں پورے شام کےعوام کہ جنہوں نےپانچ سال تک قربانیاں دی ہیں نہ صرف شکر بجا لائے ہیں بلکہ داعش کی اس ذلت آمیز شکست پرجشن منا رہے ہیں اوریقیناً جشن منانا ان کاحق بھی ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہےکہ پاکستان میں کچھ عاقبت نااندیش افراد جوکہ اساتذہ،کالم نگاروں اوردانشوروں کےلبادے میں موجود ہیں انہوں نےحلب میں داعش کی شکست کانوحہ پاکستان میں اس طرح شروع کیا ہےکہ جیسے کشمیر کوپاکستان سےہندوستان سےچھین لیا ہو اورپاکستان کا بچہ بچہ اس پرسوگوار ہو۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ شامی عوام کی خوشی میں ان سب کوخوش ہونا چاہیئے کہ ان مظلوموں کوداعش جیسے خونخوار بھیڑیوں سےنجات حاصل ہوئی کہ جن کی درندگی کانشانہ نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اوردیگر مذاہب کےلوگ بھی بنتے رہے اورجہاں مسلمانوں کی مساجد کوتباہ کیا گیا وہاں قدیم تاریخی کلیساؤں کوبھی بم دھماکوں سےاڑانے والےیہی دا عشی تھے۔اسی طرح پیغمبر گرامی قدر حضرت محمد(ص) کےجلیل القدس صحابہ کرام کےمزارات مقدسہ کوبم دھماکوں سےاڑانے والے بھی یہی داعشی درندے تھے،لیکن حیرت کی بات ہے کہ جس روز سےحلب میں شامی افواج اورعوام کوفتح وکامرانی حاصل ہوئی ہے،اسی روز سےہی پاکستان میں کچھ مخصوص داعشی سوچ کےحامل افراد نےمعصوم اذہان کواپنے مذموم عزائم کےلیے بھڑکانا شروع کردیا ہے اورایسا محسوس ہورہا ہے کہ دا عش کی شکست شام میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہوئی ہے۔
کیاداعش کااگلا ہدف پاکستان ہوگا؟ یہ سوال نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کےباشعور افراد کےاذہان میں جنم لےرہا ہے۔ اس کاجواب ہے ہاں داعش پاکستان میںموجود ہے اوراب حلب سےفرار کرکے افغانستان پہنچنے والے داعشی دہشت گردوں کےلیے اگلی پناہ گاہ شاید پاکستان ہی نہ ہو کیونکہ یہاں پہلے سے ہی داعش کےہم فکر لوگ موجود ہیں جوان کی آمد کےمنتظر ہیں۔
حلب میں بدترین شکست کاسامنا کرنےکے بعد اب داعش کی بہت بڑی تعداد افغانستان پہنچ چکی ہے اورماہرین سیاسیات کاکہنا ہےکہ دراصل افغانستان میں داعش کاوجود جوپہلے خفیہ تھا اب اعلانیہ ہوگا ا ورداعش کااگلا ہدف اب پاکستان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان پرداعش جیسی دہشت گرد گروہوں کی پہلے بھی نظر رہی ہے اوراب شام اورعراق جوان کےبنیاد مقاصد تھے وہاں پرناکامی کےبعد بالآخر اب افغانستان پہنچ چکے ہیں اورروس کبھی بھی ان داعشی دہشت گردوں کوافغانستان میں نہیں رہنے دےسکتا تونتیجے میں یہ د اعشی دہشت گرد اس لیے بھی پاکستان کارخ کرسکتے ہیں کہ یہاں پہلے سے ہی داعش کی فکر پروان چڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اورماضی میں اس فکر کاقلع قمع کرنےکےلیے ہی افواج پاکستان نےایک بھرپور اورکاری ضرب لگاتے ہوئے ضرب عضب آپریشن کاآغاز کیا تھا۔ جس کے نتائج بھی مثبت آئے اورداعش کی فکر رکھنے والے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی لیکن تاحال انہی دہشت گردوں کے نیٹ ورکس پاکستان بھر میں موجود ہیںجن پرحکومت اورافواج پاکستان کو مزید توجہ مرکوز کرنےکی ضرورت ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہےکہ امریکہ،اسرائیل،برطانیہ اورمغربی سامراج سمیت عرب بادشاہتیں بھی اپنی بادشاہتوں کےتخت کوبچانے کی خاطر یہی چاہتے ہیں کہ دنیا کےدیگر مسلمان ممالک میں بننے والی حکومتوں کوکمزور ترین حکومتیں بنایا جائے جواپنے دفاع کےلیے بھی یا تومغرب سےبھیک مانگیں یاپھر عرب بادشاہوں سےبھیک مانگتے رہیں اوراس کام کےلیے مغربی اورعربی سامراج نےمشترکہ طورپر ایک پراڈکٹ شام اورعراق میں متعارف کروائی تھی جسے اب ناکامی ہوچکی ہے تولہٰذا اب اس پراڈکٹ کوبچانے کےلیے دوسرے ممالک کاانتخاب کیاجارہا ہے جس میں افغانستان اس کی لپیٹ میں آچکا ہےاوراگر داعش کی ذلت آمیز شکست ورسوائی کانوحہ پاکستان میں اسی طرح ہوتا رہا توایسا لگ رہا ہے کہ داعش کےسلیپنگ سیلز بھی حرکت میں آسکتے ہیں اورحکومت جوپہلے ہی پانامہ اوردیگر مسائل میں پھنسی ہوئی ہے نہ جانے کس طرح اس خطرے کامقابلہ کرپائے گی۔یقیناً یہ ایک غور طلب اورسنجیدہ معاملہ ہےکہ جس پراہل اقتدار اورہمارے سیکیورٹی کےادارے بھی متوجہ ہوں گے اوراپنے وطن کےدفاع کی خاطر انتھک محنت کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اس وطن عزیز کوکہ قائد اعظم محمد علی جناح اورعلامہ اقبال کاپاکستان بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے۔انشاء اللہ دشمنان اسلام وپاکستان نیست ونابود ہوں گے خواہ وہ داعش کی صورت میں ہوں یاپھر کسی اور صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔سوال پھر وہی ہے کہ کیا دولۃ السلامیہ کی ضرورت عرب دنیا میں کہ جہاں مطلق العنان بادشاہتیں موجود ہیں وہاں پر نہیں ہے؟

متعلقہ مضامین

Back to top button