جنگ اخبار تجزیہ : مجالس میں ٹارگٹ کلنگ، کراچی آپریشن رینجرز اور پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
شیعیت نیوز: محرم الحرام میں یکے بعد دیگرے مجالس میں فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ نے ایک بار پھر کراچی آپریشن خصوصاپولیس اور رینجرز کی کارکردگی کی نہ صرف قلعی کھول دی بلکہ سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے ،ذرائع کے مطابق دہشتگرد جب اور جہاں چاہیںلوگوں کو نشانہ بناکرباآسانی فرارہوجاتےہیں جوکسی المیے سے کم نہیں جس کی مثال گزشتہ روز ناظم آباد میں منعقدہ مجلس پرمسلح موٹرسائیکل سوار دہشتگردوں کی فائرنگ سے خاتون سمیت 6افراد کا جاں بحق ہونا ہے، واضح رہے کہ قبل ازیں رواں ماہ میں ہی دہشت گرد گلستان جوہر،گلشن اقبال، لیاقت آباد میں مجالس کے دوران فائرنگ اور بم حملے کرچکے ہیں جس میں متعدد معصوم جانیں ضائع اور کئی زخمی ہوئے تھے اور اب ناظم آباد میں دہشت گردی کی حالیہ واردات نے ایک بار پھر کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
کراچی میں جاری آپریشن کے باوجود دہشت گردوں کا یوں بلا خوف کارروائی کرنا یقیناً سیکورٹی اداروں کیلئے کھلاچیلنج ہے۔ کیونکہ گزشتہ روز ناظم آباد نمبر 4؍ جس جگہ موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے کارروائی کرکے بے گناہ افراد کو شہید کردیا۔ وہاں سے رینجرز کا ضلعی ہیڈ کوارٹر اور چوکی چند میٹر جبکہ پولیس تھانہ بھی کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شرپسندوں کو استعمال کرنے والے ابھی تک قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں، کیونکہ جیسے ہی وہ احکامات جاری کرتے ہیں ویسے ہی شرپسند عناصر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ یقیناً کراچی میں کالعدم تنظیموں، مافیا گینگز کے کارندوں، دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز کو وارداتوں کے لیے ایک طویل عرصے سے کھلا لائسنس ملا ہوا تھا جس پر قابو پانے کیلئے وقت درکار تھا لیکن آپریشن شروع ہوئے بھی کافی عرصہ ہوچکا ہے۔ لہٰذا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اب جوابدہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تمام تر حکمت عملی اور ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود شہر قائد میں مکمل طور پر امن کے قیام کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے جرائم پیشہ، ٹارگٹ کلرز کے خلاف جاری آپریشن کے مثبت اثرات تو مرتب ہوئے ہیں اور کسی حد تک شہر کی روشنیاں بحال ہوئیں مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ وقفے وقفے سے جرائم پیشہ عناصر سرگرم ہوجاتے ہیں اور شہر میں لاشیں گرنے کے واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔جو آپریشن پر سوالیہ نشان ہیں۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے پولیس کے اعلی حکام خصوصا ایس ایس پی سینٹرل جو صحافیوں کا فون ریسیو کرنا زحمت سمجھتےہیں انہیں ایئرکنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر سکیورٹی چیک کرنے کا پابند بنانا ہوگا لیکن اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ سکیورٹی چیک کے نام پر معصوم اور بے گناہ شہریوں کو پریشان کرنے کی بجائے صرف جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کی جائے۔