مقالہ جات

فرزند امام ؑ سید محمد بن امام علی نقی علیہ سلام کا مختصر تعارف

سید محمد ؑ امام نقیؑ کے بڑے بیٹے تھے. آپ امام حسن عسکریؑ کے بھائی اور امام زمانہؑ کہ چچا ہیں.  اہل عراق کے یہاں آپ کو باب الحوائج اور سبع الدُجَیل یعنی دجیل کا شیر کہا جاتا ہے. آپ کی جلالت و منزلت کو جاننے  کے لیے آئے دن آ پ کے حرم مطہر سے کرامات کا ظاہر ہونا کافی  ہے. اگر ہم انہیں جناب عباس علمدارؑ سے تشبیہ دیں تو بے جا نہ ہو گا، کیونکہ جس طرح کا جلال و رعب جناب عباسؑ کے لیے مشہور ہے ویسا ہی جناب سید محمدؑ کے لیے بھی سننے میں آیا ہے . یہاں تک کہ اہل عراق کبھی آپ کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے . سامرہ کے اطراف میں رہنے والے افراد اکثر اپنے جھگڑوں کا فیصلہ آپ کے نام کی قسم کھا کر کرتے ہیں ، اور منکر مال بنا قسم کھائے ہی مال اس کے مالک کو لوٹا دیتا ہے کیونکہ اگر وہ جھوٹی قسم کھاتے ہیں تو انہیں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا  پڑتا ہے۔

بعض روایات کے مطابق آپ میں امامت کی صلاحیت موجود تھی . جو آپ کے کردار کی بلندی اور علو شان پر دلیل ہے.  امام نقی ؑ آپ سے بے حد محبت فرماتے تھے یہاں تک کہ جب آپ کا امام کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تو امام نقیؑ نے سامرہ میں سخت نظر بندی کی زندگی میں بھی  آپ کے لیے مجلس ترحیم کا انعقاد فرمایا  جس میں کئی افراد نے شرکت کی اور امام حسن عسکریؑ نے آپ کی وفات پر اپنا دامن چاک کیا.

آپ کی والدہ کا نام حدیث یا سلیل تھا. سید محمدؑ کی ولادت ۲۲۸ ہجری میں مدینے کے ایک گاؤں صریا میں ہوئی. آپ ابھی پانچ سال کے ہی تھے کہ امام نقیؑ کو متوکل عباسی کےکہنے پر مدینے سے سامرہ پہنچا دیا گیا . آپ اس وقت مدینے میں ہی رہے.  حالات و واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ سید محمدؑ بعد میں اپنے والد اور بھائی امام حسن عسکریؑ کے پاس عراق تشریف لے آئے تھے. ۲۵۳ ہجری میں آپ نے حج کا قصد کیا اور ابھی سامرے سے نکل کر کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ بلد کے مقام پر آپ کی صحت ناساز ہو گئی اور آپ نے اسی مقام پر ۲۹ جمادی الثانی کو اس دار فانی سے کوچ کیا. بعض مورخین کے مطابق عباسی خلفاء کی جانب سے آپ کو مسموم کیا گیا تھا جس کی وجہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی. بلد میں مقیم شیعوں نے آپ کو  وہیں دفن کیا اور اس وقت اسی مقام پر آپ کا حرم مبارک مرجع خاص و عام ہے.

آپ کی مرقد مبارک کاظمین کو سامرہ سے ملانے والی اصلی شاہراہ پر واقع ہے جو بغداد سے ۸۵ کلو میٹر اور سامرہ سے ۴۵ کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے. آپ کے حرم کی تعمیرات کی دقیق تاریخ تو معلوم نہیں البتہ بعض مورخین کے مطابق آپ کے حرم کی پہلی تعمیر عضد الدولہ دیلمی کے ہاتھوں چوتھی ہجری میں ہوئی۔ اس کے بعد دسیویں ہجری میں شاہ اسماعیل صفوی نے فتح بغداد کے بعد آپ کے حرم کی تعمیر نو کا سہرا اپنے سر کیا.

آپ کی بہت سے کرامات مشہور ہیں.من جملہ بے اولاد حضرات آپ کے حرم میں صاحب اولاد ہونے کے لیے منت مانتے ہیں اور خدا آپ کے طفیل انہیں صاحب اولاد کر دیتا ہے. عموما آپ کے یہاں گوسفند ذبح کر کے لوگوں کو کھلانے کی منت مانی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے حرم کے اردگرد کھجوروں کے درختوں کے بعد سب سے زیادہ دکھنے والی چیز گوسفند فروش ہی ہوتے ہیں. ہم بطور تبرک ایک کرامت نقل کرتے ہیں:

سید مرزا ہادی خراسانی امامین عسکرین کے حرم کے خادم ، سید حسن آل خوجہ سے نقل کرتے ہیں کہ: ایک دن  میں حرم سید  محمدؑ کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک اہل عراق میں سے ایک شخص داخل ہوا جس نے اپنے ہاتھ گردن سے باندھ رکھے تھے. میں اس کے نزدیک گیا اور جا کر اس بیماری کی علت دریافت کی . وہ یوں گویا ہوا: پچھلے سال میں اپنی بہن کے گھر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے صحن میں ایک گوسفند بندھا ہوا ہے. میں چاہتا تھا کہ اسے ذبح کر کے کھاؤں؛ بہن نے کہا اسے ہاتھ نہ لگانا یہ سید محمدؑ کی نذر کے لیے ہے . میں نے اس کی باتوں کی جانب توجہ نہ دی اور گوسفند ذبح کر کے کھا لیا. بس تین دن نہ گزرے تھے کہ میرے ہاتھ شل ہونا شروع ہوئے اور دن بدن میری حالت بگڑتی چلی گئی ، شروع میں تو مجھے اس بیماری کی علت معلوم نہ ہوئی لیکن کچھ عرصے بعد متوجہ ہوا کہ یہ میرے ہی کام کا خمیازہ ہے. اب میں آیا ہوں تاکہ اس سید جلیل سے معافی طلب کر کے شفا کا خواستگار ہوں. اس کے بعد وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ حرم کے اندر چلا گیا اور گڑگڑا گڑگڑا کر رونے اور معافی مانگنے لگا . یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں میں حرکت پیدا ہوئی . اس نے  بارگاہ الہی میں سجدہ شکر کیا اور منت مانی کے وہ ہر سال سید محمدؑ کے حرم میں ایک گوسفند نذر کیا کرے گا. (اللھم صلی علی محمد و آل محمد)

۷ جولائی ۲۰۱۶ کی شب تکفیریوں اور داعشی دہشت گرد ٹولے نےاسلام دشمنی اور اہلبیت رسولﷺ سے اپنے بغض کا اظہار کرتے ہوئے عین اس وقت جب لوگ عید کے موقع پر اس سید جلیل کے حرم کی زیارت میں مشغول تھے، دہشتگردانہ مسلح حملہ کیا ، جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں اور کئی زائرین زخمی بھی ہوئے. لیکن خدا کے فضل و کرم سے مجاہدین نے مقاومت کر کے ان خوارجین زمن کو پسپا کر کے جہنم کی وادی میں پہنچا دیا. اطلاعات کے مطابق ، بارود سے بھری گاڑی کو حرم کے صدر دروازے سے ٹکرا کر دھماکے سے اڑا دیا گیا. لیکن حرم اور مرقد کی زیادہ نقصان نہیں ہوا. مجاہدین کے بروقت رد عمل سے حرم بیشتر  تخریب کاری سے محفوظ رہا. الحمد للہ.  بارگاہ خدا میں دعا ہے کہ وہ عراق میں ان خوارج سے نبرد آزما مجاہدین کو ہمت اور طاقت عنایت فرمائے. تاکہ وہ  مقدسات دینی کی اسی طرح حفاظت فرماتے رہیں. آمین
التماس دعا………

متعلقہ مضامین

Back to top button