پاکستان

سندھ کے صوفی کلچر کو شدت پسند مدارس تباہ کررہے ہیں، آئی جی سندھ پولیس

شیعیت نیوز: پاکستان کے صوبہ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ دینی مدراس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پورے پاکستان میں کوئی یکساں قانون موجود نہیں، ان مدارس کے نصاب اور فنڈنگ کی نگرانی ہونی چاہیے جن دونوں پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔

بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تحت مدارس کی رجسٹریشن ہو رہی ہے لیکن اس قانون کو مزید فعال اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔’ پورے ملک میں یکساں قانون ہونا چاہیے تاکہ تمام مدارس ایک چھتری کے نیچے آئیں اور ان کی نگرانی میں بھی آسانی پیدا ہو۔‘

گذشتہ چند سالوں میں اندرون سندھ کے علاقے بھی شدت پسندی کی زد میں آئے ہیں، جیکب آباد اور شکارپور میں خودکش بم حملوں کے علاوہ کراچی میں صفورا بس حملے کے ایک مرکزی ملزم کا تعلق کوٹڑی سے نکلا تھا، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ بالائی سندھ میں شدت پسندی کو پنجاب اور بلوچستان سے جوڑتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: ’جیکب آباد اور شکارپور خودکش بم دھماکوں میں جتنے بھی لوگ گرفتار ہوئے، ان کا تعلق بلوچستان سے تھا اسی طرح زیریں پنجاب میں جو شدت پسندی ہے وہ سندھ کی سرحدی علاقوں پر اثر انداز ہوتی ہے، لازم ہے کہ سندھ کا ماحول بھی ان علاقوں پر اثر ہوتا ہوگا۔‘

آئی جی سندھ نے تسلیم کیا کہ سندھ میں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ’سندھ کا جو روایتی صوفی کلچر تھا وہ آہستہ آہستہ مٹ رہا ہے، چھوٹے چھوٹے شہروں میں بڑے بڑے مدرسے بن رہے ہیں اور یہ مدرسے شدت پسندی کے لیے بہت بڑا کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر سندھ کے بالائی علاقوں میں۔‘

آئی جی سندھ مدارس کے فروغ کو سرکاری تعلیمی نظام کی ناکامی قرار دیتے ہیں، ان کے مطابق غریب لوگوں کے بچے نجی اسکولوں میں تعلیم اور دو وقت کا کھانا برداشت نہیں کرسکتے اس وجہ سے انھیں مدرسے میں کشش نظر آتی ہے جہاں تعلیم ، دو وقت کا کھانا اور کپڑے بھی مل جاتے ہیں اس وجہ سے لوگ بچے وہاں بھیج دیتے ہیں لیکن تمام مدراس ایک جیسے نہیں کچھ اچھے بھی ہیں۔

سندھ میں گذشتہ دو برسوں کے دوران قومی ایکشن پلان کے تحت لاؤڈ سپیکر کی خلاف ورزی پر 1308 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، غیر قانونی طور پر مقیم 2896 افغان شہری گرفتار ہوئے، نفرت انگیز مواد کی اشاعت اور تقسیم پر 178 افراد کو حراست میں لیا گیا اسی طرح وال چاکنگ کے الزام میں 157 افراد گرفتار ہوئے۔

آئی جی سندھ الھڈنو خواجہ کا دعویٰ تھا کہ کالعدم تنظمیں پہلے کھلے عام جلسے جلوس کرتی تھیں اور حالیہ دنوں بھی خیرپور اور حیدرآباد میں ایسی کوششیں کی گئی تھیں لیکن پولیس نے انہیں قطعی طور پر ایسے جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں دی۔

انھوں نے بتایا: ’ کچھ ایسی کالعدم تنظیمیں ہیں جنھوں نے اپنا نام تبدیل کرکے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تھا، اس حوالے سے پالیسی سطح پر فیصلہ لینے کی ضرورت ہے ، بجائے اس کے کہ ہم انھیں قبول کریں اور وہ نئے نام کے ساتھ آئیں۔ ہمیں ایسی پالیسی بنانا ہوگی کہ وہ افراد جو ایک بار کسی شدت پسند فکر یا نظریے کے ساتھ ہوجاتے ہیں تو ان کی ہر قسم کی سیاست پر پابندی ہونی چاہیے۔‘

انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں کمی اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ان الزامات کو مسترد کیا ان کا کہنا تھا کہ پولیس میں ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کہ کسی کو راہ سے ہٹانا ہے۔
ے خواجہ کا کہنا ہے کہ ’اگر دہشت گردوں کے ہاتھوں میں اسلحہ ہوگا تو پولیس کو انھیں مناسب جواب دینا فرض بن جاتا ہے۔ پولیس کی مناسب جواب دینے کی پالیسی کی وجہ سے اندرون سندھ اور کراچی میں کافی امن بھی ہوا ہے۔‘

کراچی میں گذشتہ 17 ماہ میں 97 پولیس اہلکار حملوں اور دھماکوں میں ہلاک ہوچکے ہیں، آئی جی سندھ کے مطابق کراچی میں پولیس بہادری سے لڑ رہی ہے اسی وجہ سے اس کے خلاف حملے بھی ہو رہے ہیں اگر یہ چھپ کر اپنے بلوں میں بیٹھ جائیں گے تو انھیں کوئی بھی نہیں مارے گا۔

’وہ تمام عناصر جن کی دم پر پولیس کا پاؤں آتا ہے وہ پریشان ہوتے ہیں، حملوں میں زیادہ حصہ شدت پسندوں کا ہے جبکہ دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔‘

آئی جی سندھ نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ رینجرز فرنٹ لائن اور پولیس سیکنڈ لائن پر چلی گئی ہے، ان کے مطابق پولیس فرنٹ لائن پر موجود ہے ماسوائے ایک عشرے میں یہ تاثر ابھرا تھا کہ پولیس ایک مخصوص ’سیاسی ٹولے‘ کے خلاف کام نہیں کر پا رہی، اب وہ ماحول نہیں رہا پولیس بہتری کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button