پاکستان

JDC کا بازار مہربانی دشمنوں کی سازش کی نظر

شیعیت نیوز: ویسے یہ بات لکھنے کی نہیں لیکن میں چاہتا ہوں آج اس کو لکھ کر محفوظ کرلوں تاکہ مستقبل میں کام آئے،

تقریبا دوپہر ایک بجے ایکسپو سنٹر کے یونیورسٹی روڈ والے دروازے پر پہنچا تو دیکھا سینکڑوں لوگ مختلف چیزیں اٹھائے اس دروازے سے نکل رہے ہیں، داخل ہونے والے دروازے تک پہنچا تو دیکھا کہ کئی لوگ جن میں مرد، بچے اور عورتیں شامل تھیں کڑی دھوپ میں کھڑے تھے اور دروازہ بند تھا، لوگ مختلف طریقوں سے ایکسپو سنٹر میں داخل ہونے کی تگ و دو میں مصروف تھے، کوئی دروازہ پھلانگ رہا تھا، کوئی سکائوٹس اور پولیس کو منتیں ترلے کر رہا تھا کہ شاید وہ اسے داخل ہونے میں مدد دیں لیکن ان میں سے چند ہی کامیاب ہو رہے تھے باقیوں کی کوششیں صرف کوششیں ہی تھیں

اسی جگہ مجھے میڈیا کے نمائندے لوگوں سے انٹریوز کرتے نظر آئے جنہیں لوگ جذبات سے لبریز انٹرویوز دے رہے تھے ، کوئی کہہ رہا تھا ہم صبح سات بجے سے کھڑے ہیں لیکن ہمیں ابھی تک اندر نہیں جانے دیا، کوئی کہہ رہا تھا ہم فلاں جگہ سے اتنا اتنا سفر کرکے آئے ہیں لیکن ہماری کوئی نہیں سن رہا

میں یہ سب بغور دیکھتا رہا کہ میری نظر ایک شخص پر پڑی جو ہر انٹرویو دینے والے کے پاس جاتا اور اس کے کانوں میں کچھ کہتا

میں نے سوچا چلو میں بھی سنوں یہ کیا کہہ رہا ہے

ایک شخص جو سب سے زیادہ جذباتی تقریر کر رہا تھا یہ شخص اس کے قریب گیا تو ساتھ میں بھی کھڑا ہوگیا اس مشکوک شخص نے جب اس جذباتی شخص سے بات کرنا چاہی تو میں نے کان لگا لیا،

اس نے کہا: یہاں پر تین لوگ ابھی تک مر چکے ہیں اور کئی بیہوش ہو چکے ہیں، آپ مذمت تو کر رہے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں، آپ نام لیکر مذمت کریں اس کا جس نے یہ پروگرام کروایا ہے تو اس جذباتی نے کہا کیا نام ہے اس کا؟ اس نے کہا ’’ظفر، ظفر عباس‘‘۔

یہ سنتے ہی مجھ سے رہا نہ گیا

میں نے اس مشکوک سے کہا ’تم کون ہو، یہاں کیا کرنے آئے ہو؟

اس نے کہا ’’مجھے سامان لینا ہے میرے ساتھ فیمیلیز ہیں ان کیلئے‘‘

میں نے کہا ‘‘ مجھے وہ فیمیلیز دکھائو جن کو سامان دلوانا ہے‘‘

وہ چپ ہو کر کھڑا ہوگیا

میں نے اسے کہا تم سامان لینے نہیں لوگوں کو اکسانے آئے ہو، یہاں پر کوئی نہیں مرا نہ کوئی بیہوش ہوا ہے تم افواہیں پھیلا کر لوگوں سے اشتعال انگیز بیانات دلوا رہے ہو،

میرا یہ کہنا تھا کہ دوسرے لوگ میرے قریب آگئے کوئی اپنی طرف کھنچنے لگا کوئی اپنی طرف کہ تم ان (انتظامیہ) کی وکالت کر رہے ہو ہمیں دیکھو ہم کس کڑی دھوپ میں کھڑے خوار ہو رہے ہیں

ایک بندہ جا کر میڈیا والوں کو لے آیا اور میری طرف اشارہ کرکے کہا اس سے بات کرو یہ انتظامیہ میں سے لگتا ہے

 

نمائندے نے مائیک آگے لاتے ہوئے کہا جی جناب آپ کے کیا تاثرات ہیں اس پروگرام کے حوالے سے؟

میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے تاثرات دئے کہ:

دیکھیں پروگرام بہت اچھا ہے، بس لوگوں کو تھوڑا صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے پروگرام سرکاری نہیں بلکہ ایک چھوٹے فلاحی ادارے کی جانب سے ہے سو ان کے جتنے وسائل ہیں انہوں نے اتنا اہتمام کیا ہے لیکن چونکہ میڈیا میں خبریں آنے کے بعد لوگ اندارے سے زیادہ آگئے ہیں تو یقینا ایک طرح کی پریشانی کا سامنا ہوگا لیکن یہ بھی صبر و تحمل سے ختم ہو سکتی ہے، دوسرا یہ کہ آپ میڈیا یہاں پر ان لوگوں کو کوریج دے رہے ہیں جو ابھی تک داخل بھی نہیں ہو سکے، باہر نکلنے والا دروازہ دیکھیں جہاں سینکڑوں لوگ اپنی ضروریات کی چیزیں لیکر نکل رہے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد ان (انتظار کرنے والوں) کی تعداد سے دوگنا زیادہ ہے۔‘‘

لیکن میڈیا والوں کی ہٹ دھرمی جاری رہی اور وہ مسلسل ان افراد کے تاثرات لے رہے تھے جو غصے سے بھرے دکھائی دے رہے تھے، ایک ہی جگہ مختلف چینلز مگر سوال ایک کہ اس بد انتظامی پر آپ کیا کہیں گے؟ یہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ آرہا تھا یہ اتنا بڑا پروگرام چھوڑ کر صرف انہی لوگوں سے تاثرات کیوں لے رہے ہیں

خیر اس کے تھوڑی دیر بعد میں اور میرے دوست اندر داخل ہوگئے اور وہاں جا کر دیکھا کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی جنہیں سامان دیا جا رہا تھا اور سامان ختم ہونے کے بعد لوگ ڈیکوریشن کی کرسیاں، غبارے اور کرسیوں کے کورر تک لے جا رہے تھے لیکن کوئی میڈیا کا چیمپئن ظاہر نہیں تھا، جب پروگرام تقریبا اختتام کو پہنچا تو سارے صحافی حضرات ہال میں داخل ہوئے اور پروگرام کے آرگنائزر سید ظفر عباس سے سوالات شروع کئے

سوالات کیا تھے

اتنے بڑے پروگرام کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟

گورنمنٹ سےاین او سی لیا تھا وغیرہ وغیرہ

ظفر تو ان کے سوالات کے بخوابی جوابات دیتے رہے لیکن میں یہ بات نوٹ کرتا رہا کہ صحافی حضرات کے چہروں کے تاثرات کچھ اچھے نہیں

اسی اثنا میں میرے دوست نے واپسی کیلئے کہا اور طے پایا کہ باہر چائے پی کر گھروں کو سدھارتے ہیں

جیسے ہی ایکسپو کے مرکزی دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ دس بارہ موٹر سائیکلیں دروارے پر گری پڑی ہیں اور میڈیا والے ان کی ویڈیو بنا رہے ہیں، جاتے جاتے میں نے ایک آواز سنی ، ایک میاں اپنی بیوی کو کہہ رہا تھا کہ ’’ یہ موٹر سائیکلیں جان بھوج کر گرائی ہیں اور میڈیا والوں سے کہا ہے ویڈیو بنائو‘‘۔

 

مجھے نہیں پتہ یہ کس کی شرارت تھی لیکن پروگرام کے دوران مجھے یہ پتہ چلا تھا کہ مفتی نعیم میڈیا پر بیٹھ کر ہمارے پروگرام پر تنقید کر رہے ہیں، اور دوسری طرف وزیرِ اعلیٰ نے نوٹس لے لیا ہے وغیرہ

میں راستے میں سوچتا آیا کہ کاش جے ڈی سی کی جگہ کوئی اور تنظیم ہوتی یا پھر یہ ملک پاکستان نہ ہوتا کوئی اور ملک ہوتا، پھر نہ کوئی بدنظمی ہوتی نہ کوئی تنقید کرتا اور نہ کوئی نوٹس لیتا کیونکہ یہ کوئی کتنا بھی محبِ وطن اورہو اتحادِ بین المسلین پر کام کرے یہ سسٹم اسے بار بار یہ محسوس کرواتا ہے کہ ’’تم شیعہ ہو‘‘، تم ’’سنی ہو‘‘ تم احمدی ہو‘‘ تم سندھی ہو‘‘ تم مہاجر ہو‘‘۔
 
ادارہ شعیت نیوز JDC کی جانب سے کامیاب بازار مہربانی کے انعقاد پر پوری شیعہ قوم کا مبارک باد پیش کرتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button