پاکستان

گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات میں کون کامیاب ہوگا،مختصر جائزہ

شیعیت نیوز: گلگت بلتستان کونسل کی چھ نشستوں کیلئے ہونے والے انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آتی جا رہی ہے گلگت بلتستان کے ہوٹلوں اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ ان انتخابات میں کونسا رکن اسمبلی اپنا ووٹ فروخت کر کے راتوں رات کروڑ پتی بنے گا۔ ذرائع کے مطابق بعض ممبران اسمبلی جن میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض ممبران اسمبلی بھی شامل ہیں نجی محفلوں میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اسمبلی کی رکنیت میں کیا رکھا ہے اس سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ اپنا ووٹ فروخت کر کے راتوں رات کروڑ پتی بن جاؤ اور کیش کرو حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے تو ایک محفل میں یہ تک کہہ دیا کہ اگر پارٹی مجھے پارٹی حتیٰ کہ اسمبلی رکنیت سے فارغ بھی کرتی ہے تب بھی نقصان کا سودا نہیں ہے اگر میں پانچ سال رکن اسمبلی رہا تو تنخواہ کی مد میں پانچ سال میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر لاکھ کما سکتا ہوں جبکہ یہاں راتوں رات ایک ووٹ کے بدلے ایک کروڑ روپے ملتے ہیں اور ایک کروڑ روپے نقد وصول کر کے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کر کے کسی آزاد امیدوار کو ووٹ دینا نقصان کاسودا نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت تین شخصیات جو کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں وہ ممبران اسمبلی پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں تا کہ کونسل کے الیکشن میں یہ ممبران انہیں ووٹ دیدیں۔ ذرائع کے مطابق ان تین شخصیات میں سرفہرست گلگت بلتستان کے بہت بڑے کاروباری شخص علی حیدر ہیں جو کونسل کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ علی حیدر کے مجلس وحدت المسلمین سے معاملات طے پا گئے ہیں جس کے بعد نہ صرف مجلس وحدت المسلمین کے تینوں ممبران اسمبلی کے ووٹ علی حیدر کو پڑیں گے بلکہ ایم ڈبلیو ایم کے قریبی حلقوں کا دعویٰ  ہے کہ قائد حزب اختلاف شاہ بیگ جنہیں ایم ڈبلیو ایم  نے اس شرط پر انہیں قائد حزب اختلاف نامزد کیا تھا کہ وہ کونسل کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کے حمایت یافتہ امیدوار کی حمایت کریں گے بھی علی حیدر کو ووٹ دیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس طرح علی حیدر نے ایک اور رکن اسمبلی کی حمایت حاصل کی ہے اور انہیں الیکشن میں کامیابی کا مکمل یقین ہے۔ دیامر سے تعلق رکھنے والی ایک اور اہم شخصیت سابق رکن کونسل سید افضل جو جوڑ توڑ کے حوالے سے پورے علاقے میں مشہور ہیں بھی دوبارہ کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں سید افضل کا کونسل کے الیکشن ووٹ کا حدف پانچ نہیں بلکہ سات ووٹ ہیں گزشتہ الیکشن میں ووٹوں کی گنتی کے موقع پر جب ریٹرننگ آفیسر نے سید افضل کی چھ ووٹوں سے کامیابی کا اعلان کیا تو سید افضل بے ساختہ بول پڑے تھے کہ جناب میرے سات ووٹ ہیں کہیں آپ کو غلطی ہوئی ہو گی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ایک رکن اسمبلی  نے سید افضل سے بھاری رقوم وصول کرنے کے باوجود ووٹ نہیں دیا تھا سید افضل  نے اس رکن اسمبلی سے رقم کی وصولی کیلئے کئی دفعہ جرگہ کیا تھا مگر اس کے باوجود رقم وصول نہ ہو سکی ۔ اس مرتبہ سید افضل کے رکن اسمبلی نواز خان ناجی اور راجہ جہانزیب سے معاملات طے پا گئے ہیں یہ دونوں ووٹ پکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ سید افضل مزید پانچ اراکین اسمبلی سے معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں بتایا جاتا ہے کہ سید افضل کے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض ممبران جن کا تعلق سکردو اور دیامر سے بتایا جاتا ہے سے معاملات طے کرنے کیلئے مذاکرات فائنل مرحلے میں چل رہے ہیں اس طرح سید افضل نے اسلامی تحریک کے بلتستان ڈویژن سے تعلق رکھنے والے بعض ممبران سے بھی رابطے تیز کر دیئے ہیں ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی ایک اور اہم کاروباری شخصیت حاجی فدا حسن جو گزشتہ سال اسمبلی کے انتخابات میں ہار گئے تھے بھی گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک صوبائی وزیر ایک رکن اسمبلی اور گلگت ریجن سے تعلق رکھنے والی ایک نامی گرامی خاتون رکن اسمبلی پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے مگر فدا حسین کو پارٹی ٹکٹ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے مگر اس کے باوجود حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض ممبران اور دیگر پارٹیوں کے ممبران سے مسلسل رابطے میں ہیں اسی طرح ایک اور بڑی کاروباری شخصیت محبوب علی عباس بھی کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں کونسل کے انتخابات میں ووٹوں کی بولی لگنا تو کوئی نئی بات نہیں ہے یہ سب کے علم میں ہے کہ ووٹوں کی خریدوفروخت ہو رہی ہے اور مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کی قیادت بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ووٹوں کی خریدوفروخت ہو رہی ہے اور اراکین اسمبلی کو ایک ووٹ کے بدلے بھاری رقوم کی آفر ہو رہی ہےں مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض اراکین اسمبلی بھاری رقوم کے عوض اپنی وفاداری تبدیلی کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اس بات کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ گورننس آرڈر میں ترمیم کے ذریعے کونسل کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کا طریقہ تبدیل کر کے شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ ہو تا کہ ممبران اپنی اپنی وفاداری تبدیل نہ کر سکیں اس وقت گلگت بلتستان کی عوام یہ چاہتی ہے کہ ان کے منتخب ممبران اسمبلی قابل فروخت نہ ہوں یا کم از کم ایسا طریقہ کار طے کیا جائے کہ ممبران اسمبلی اپنا ووٹ فروخت نہ کر سکیں مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان پیپلزپارٹی جس کا کوئی امیدوار بھی نہیں اس نے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا ہے کونسل کے انتخابات میں ووٹنگ شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے کی نہ صرف شدید مخالفت کر رہی ہے بلکہ خفیہ رائے شماری کے سابقہ طریقہ کار میں تبدیلی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ پی پی کے صدر امجد حسین ایڈووکیٹ کے کونسل کے امیدوار سید افضل کے مسلسل رابطے میں ہیں سید افضل نے پی پی کی قیادت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا ووٹ ان کے حق میں کاسٹ کرے جس پر پی پی کی قیادت نے شرط عائد کی ہے کہ وہ پی پی میں شامل ہو جائیں گے سید افضل خفیہ رائے شماری میں کامیاب ہوئے تو انہیں کریڈٹ ملے گا اسی طرح اسلامی تحریک نے بھی پی پی سے رابطہ کیا ہے اور کہا کہ ان کے پاس چار ووٹ موجود ہیں اور اسلامی تحریک نے گزشتہ انتخابات میں عمران ندیم سمیت دیگر امیدواروں کے حق میں اپنے امیدوار دستبردار کرا دیئے تھے جس کی وجہ سے عمران ندیم الیکشن میں جیت گئے اس لئے اب پی پی اپنا ووٹ اسلامی تحریک کے کونسل کے امیدوار کو دے تا کہ اسلامی تحریک کا امیدوار کامیاب ہو سکے جس پر پی پی کی قیادت نے کہا کہ آپ کے چار ووٹوں سے ایک ووٹ فروخت ہو چکا ہے اس لئے آپ پہلے اپنے چاروں ووٹوں کی وفاداری کنفرم کر لیں اگر اسلامی تحریک اپنے چار ووٹ یقینی بناتی ہے تو پی پی بھی اپنا ووٹ اسلامی تحریک کے امیدوار کو دے گی بصورت دیگر نہ صرف اسلامی تحریک کے تین ووٹ ضائع ہونگے بلکہ پی پی کا ووٹ بھی بے مقصد ہو گا ذرائع کے مطابق آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں بڑے بڑے امیدوار تجوریوں کے منہ کھول دیں گے اور کئی ممبران اسمبلی کی وفاداری کو خریدنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ذرائع کے مطابق کونسل کے گزشتہ انتخابات میں ایک ووٹ پچاس لاکھ روپے میں فروخت ہوا تھا مگر اس مرتبہ ایک ووٹ کی قیمت ایک کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے اب کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
سورس: روزنامہ کے ٹو

متعلقہ مضامین

Back to top button