مقالہ جات

امام جعفر صادق علیہ السلام کے کیوں کر چار ہزار سنی شاگرد تھے؟

امام جعفر صادق علیہ السلام چاہتے تھے کہ سنی بھی ان کی شاگردی اختیار کریں ،یعنی آپ اپنی کلاس میں ایسی بحثیں پیش کیا کرتے تھے کہ سنی شاگرد آپ کی کلاس میں آتے تھے ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شاگرد آپ کی کلاس میں ایک دن آیا ہو لیکن دوسرے دن نہ آیا ہو ۔ ان سنی شاگردوں نے کئی سال امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی ۔حالانکہ اگر امام جعفر صادق علیہ السلام تفرقہ انگیز بحثیں چھیڑتے تو ان کے چار ہزار شاگرد اہل سنت میں سے نہیں ہو سکتے تھے ۔

ایک ایرانی تحلیل گر حجۃ الاسلام میثم صفری نے مکتب تشیع میں سنی بھائیوں کے نسبت استقبال اور مسلکی رواداری کی تاریخی حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے مختصر الفاظوں میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے چار ہزار سنی شاگرد ہونے کی مکتب تشیع میں مسلکی رواداری کی عظیم شاہد مثال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :

بعض لوگ جو تفرقہ آمیز حرکتیں کرتے ہیں ان کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اہل سنت کی صحیح شناخت نہیں رکھتے ۔ مثلا ہمارے ریڈیو اور ٹی وی پر اکثر سنیوں کو لایا جاتا ہے جو عبد الملک ریگی ،سپاہ صحابہ ، طالبان اور داعش وغیرہ جیسے گروہوں سے ہیں ! اور دیکھنے والے اور مخاطبین نادانستہ طور پر ان کو تمام اہل سنت کے برابر سمجھتے ہیں ۔

اہل سنت کے مختلف گروہوں کی شناخت حاصل کرنا چاہیے اور ان کو الگ ا لگ کرنا چاہیے ۔ جیسے دیو بندیوں کے اکثر ماننے والے کہ جو ہندوستان ، پاکستان ،بنگلا دیش اور ایران کے کچھ علاقوں میں کروڑوں کی تعداد میں رہتے ہیں وہ شیعہ سنی  مسلکی رواداری  کے قائل  اور تکفیر کے مخالف ہیں ۔یہ مکتب وہابیت سے بہت مختلف ہے ۔ البتہ مثال کے طور پر ممکن ہے کہ دیوبندی قبور کی زیارت کو جائز نہ مانتے ہوں ،لیکن کبھی بھی وہ وہابیوں کی طرح اس شخص کے قتل کرنے کو جائز نہیں کہتے کہ جو قبور کی زیارت کرتا  ہو ۔حتی سلفیوں کے درمیان بھی کافی اختلاف ہے ،جہادی سلفیوں اور داعشی سلفیوں میں بہت فرق ہے یعنی ان میں بعض کے ساتھ رواداری کا اہتمام کیا جانا  کوئی مشکل امر نہیں  ہے ۔

دوسرا نکتہ اہل سنت کے نزدیک محبت اہلبیت علیہم السلام ہے کہ جس کو مخاطب کے کانوں تک پہنچانا چاہیے تا کہ اہل سنت کو بہتر طور پر پہچان سکیں ۔ محرم کا پہلا عشرہ تھا کہ ہم قرآنی محفل کا پروگرام اجراء کرنے کے لیے ایران  کے  ایک مشہورقاری کے ساتھ ایران کے برادران اہل سنت کی نماز جمعہ میں جا پہنچے۔نماز جمعہ کے خطیب صاحب کہ جو بلوچی زبان میں خطبہ پڑھ رہے تھے انہوں  نے شیعہ عالم اور ملکی مشہور قاری کے احترام میں فارسی زبان میں خطبہ شروع کر دیا اور  اہل بیت علیہم السلام اور خاص کر امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بہت کچھ کہا یہاں تک کہ ہزاروں کی بھیڑ میں سے ایک بوڑھے نے بلوچی زبان میں نعرہ لگایا  تو سب نے ایک زبان ہو کر کہا "حسین ” اس بوڑھے نے کئی جملے امام حسین علیہ السلام کی شجاعت اور مظلومیت کے بارے میں کہے جن کے جواب میں تمام لوگ” حسین”،” حسین” کہہ کر اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے تھے ۔

بعض کے ذہن میں کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ جو باعث بنتی ہیں کہ بعض لوگ بنیادی طور پر وحدت اور مسلکی رواداری کے بارے میں کچھ سوچتے ہی نہیں ۔مثلا یہ سوچتے ہیں کہ اہل سنت قاتلین حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مساوی ہیں !ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے ،یہ بات سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وحدت اشتراکات میں ہے اختلافات میں نہیں ۔وحدت اور رواداری  کا مطلب اپنے اصول و اعتقادات سے دست بردار ہو نا نہیں ہے۔

 وحدت اور مسلکی رواداری  کی راہ میں ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ بعض لوگ وحدت اور رواداری  کے چکر میں چھت کی دوسری طرف سے نیچے چلے جاتے ہیں ۔ میں اہل سنت کی ایک مسجد میں گیا ،طلاب دیہات میں تعمیری جہاد کے نام سے آئے ہوئے تھے اور وہ اس مسجد میں ہاتھ باندھ کر بغیر سجدہ گاہ کے نماز پڑھ رہے تھے!

جو وحدت ان طالب علموں نے سمجھی تھی وہ غلط ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم باوجود اس کے کہ اپنی حقانیت پر مصر ہیں ،اس کے باوجود ہمارا مسلک یہ حکم دیتا ہے کہ اتحاد و رواداری  کی خاطر جاو اور اہل سنت کے پیچھے نماز پڑھو ،یہ نماز پڑھنا منفعل ہو نے  کی بنا پر نہیں ہے ،لہذا ہمیں اپنے تمام فقہی ابواب کی رعایت کرنی چاہیے اور نماز کو سجدہ گاہ رکھ کر  کھلے ہاتھوں پڑنا چاہیے ۔

امام صادق علیہ السلام کے تقریبا چار ہزار شاگرد تھے جن کی اکثریت قاطع اہل سنت کی تھی امام جعفر صادق علیہ السلام چاہتے تھے کہ سنی بھی ان کی شاگردی اختیار کریں ،یعنی آپ اپنی کلاس میں ایسی بحثیں پیش کیا کرتے تھے کہ سنی شاگرد آپ کی کلاس میں آتے تھے ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شاگرد آپ کی کلاس میں ایک دن آیا ہو لیکن دوسرے دن نہ آیا ہو ۔ ان سنی شاگردوں نے کئی سال امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی ۔حالانکہ اگر امام جعفر صادق علیہ السلام تفرقہ انگیز بحثیں چھیڑتے تو ان کے چار ہزار شاگرد اہل سنت میں سے نہیں ہو سکتے تھے ۔ بزرگ شیعہ علماء کی سیرت بھی یہی تھی ۔وہ اہل سنت کی فقہ بھی پڑھاتے تھے ۔

اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا ہے ؛” إنّ النّاسَ لَو عَلِمُوا مَحاسِنَ کَلامِنا لَاتَّبَعُونا.”( معاني الأخبار، ص 180) ،یقینا امام جعفر صادق علیہ السلام کا کلام محاسن ہی پر مشتمل تھا جس کی طرف اہل سنت کھچے چلے آتے تھے ۔ بسا اوقات بہت ساری باتیں حق ہوتی ہیں لیکن اہل سنت کے لیے وہ اچھی باتیں نہیں ہوتیں ۔ایسی باتوں کو سنی مخاطبین کے سامنے نہیں کہنا چاہیے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button