مقالہ جات

داعش کے خلاف ایران، حزب اﷲ اور ر وس کا اتحاد

دولت ِ اسلامیہ عراق و شام، یاداعش، شدت پسند مذہب کی انتہائی شکل ہے۔ اس کے سامنے طالبان معتدل مزاج اور القاعدہ مفلوک الحال گروہ معلوم ہوتے ہیں۔ القاعدہ ایک نظریے کا نام تھا، داعش کی صورت نظریے اور جغرافیے کا ادغام وجود میں آیا۔ القاعدہ نے افغانستان کی اسلامی امارت ہائی جیک کرنے کی کوشش کی ، داعش نے زور ِ بازو سے اپنی ایک اسلامی امارت تخلیق کرلی۔ تیل کے ذخائر، وزارت ِ خزانہ اور فعال بیوروکریسی کے ساتھ داعش اپنے زیر ِ قبضہ علاقے میں ایک ریاست کی طرح کام کررہی ہے جسے اس نے اپنی ترجیح کے مطابق اسلامی خلافت قرار دیا ، جبکہ اس کا رہنما ابو بکر البغدادی خلیفہ کہلاتا ہے۔ 

یہ بات سنجیدگی سے سوچنے کی ہے کہ داعش نہ صرف عراق اور شام بلکہ لیبیااور سینائی میں بھی اپنا وجود رکھتی ہے ، تو دوسری طرف اس کے قدموں کے نشانات افغانستان اور گرد ونواح کے علاوہ مسلم آبادی رکھنے والی یورپی ریاستوں میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔پیرس حملے اُنہوں نے کئے جو بلجیم اور فرانس میں اپنی موجودگی رکھتے تھے۔ پاکستانی حکام کا یہ بیان نادانی کے سوا اور کچھ نہیںکہ پاکستان میں داعش اپنا وجود نہیں رکھتی۔ نہایت جانفشانی، محنت اور توجہ سے جہاد کے لئے تیار کی گئی پاکستانی سرزمین میں ہرقسم اور ہر مسلک کی انتہا پسندی کے لئے موزوں نم موجود ہے۔یہاںانواع و اقسام کے لشکر، انتہا پسندتنظیمیں اور جہادی گروہ اپنا وجود رکھتے ہیںجو انتہا پسندانہ مذہب کی مختلف شکلیںہیں۔یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں ، شدت پسندی کا یہ مسلک ایسے تمام افراد کو موت کا حقدار قراردیتا ہے جو سچے عقیدے(عرب ممالک میں مستعمل ایک مکتبہ فکر کی تشریح کے مطابق) کے حامل نہ ہوں۔فرقہ واریت اور مسلک کی بنیاد پر ہونے والی قتل وغارت اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔
افغان جہاد کے نتیجے میں پاکستان میںانتہا پسندی کی پہلی لہر نمودار ہوئی ، سی آئی اے اور ایک برادر عرب ملک نے پاکستان میں انتہاپسندی کی فصل اُگانے میں بھرپور تعاون کیا، جنرل ضیا الحق اور ان کے دست ِ راست لگنے والے ’’پھل‘‘ پر شادمان ہوئے، اور جب دیوار ِ برلن گری اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو اُنھوں نے سینہ تان کر دعویٰ کیا اس انہونی کی بنیاد افغانستان میں رکھی گئی۔روسیوں کو گھائل کرنے کے بعد امریکی افغانستان سے چلتے بنے تو آلودہ کاٹھ کباڑ پاکستان کے لئے رہ گیا۔ اس کے پاس بھی ایسے جنگجوئوں کی مطلق کمی نہیںجو اس ریاست کو اسلامی امارت میں ڈھالنے کا عزم رکھتے ہیں۔ تاہم اس وقت فوجی آپریشن کی وجہ سے اُن کی ایک نہیں چل رہی، وہ کمزور ہوچکے یا چھپتے پھر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دستے ماضی میں عسکری اداروں نے ہی تیار کئے تھے لیکن اب فوج اپنی حکمت ِ عملی کو مکمل طور پر تبدیل کرچکی ہے اور ملک کو ایک نئی سمت میں گامزن کرنا چاہتی ہے۔
شکر ہے داعش نے انتہا پسندی کے سرخیل ہونے کا ٹائٹل پاکستان سے چھین کر اپنے نام کرلیا۔ آج انتہا پسندی کا پرچم پوری آب و تاب سےدولت ِ اسلامیہ عراق و شام پر لہرا رہا ہے اور یہ القاعدہ کی نسبت مغرب کے لئے کہیں مہیب خطرہ ہے۔ القاعدہ نے اپنا مرکز افغانستان میں بنایا جو یورپ سے بہت دور تھا ، لیکن داعش تو یورپ کی دہلیز پر کھڑی ہے، اور پھر اس کے یورپ کے اندر روابط اُس سے کہیں بڑھ کر ہیں جن کا القاعدہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ داعش عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔اس کے بہت سے رہنمائوں نے عراق میں امریکہ کے حراستی مراکز، خاص طور پر بغداد کے جنوب میں باکوبا جیل(Bakuba) میں تعلیم پائی۔ ابوبکر البغدادی نے بھی وہیں وقت گزارا۔ صدام حسین کی انٹیلی جنس مشینری کے اہم ممبر آج داعش میں کام کررہے ہیں۔ تاہم انتہا پسندی کا جن بوتل سے نکالنے کے بعد امریکہ مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہے کہ اب اس کالی آندھی سے کیسے نمٹا جائے۔ اسے بہت دیر کے بعد داعش کے خطرے کا احساس ہوا،اس کے یورپی حلیفوں، بشمول فرانس، کا بھی یہی حال ہے۔ دراصل مغرب بیک وقت دوکشتیوں میں پائوں رکھنے کی کوشش میں ہے، وہ داعش کا خاتمہ بھی چاہتا ہے اوراسدکو بھی اقتدار سے ہٹانا چاہتا ہے۔
پیرس حملوں کے بعد اب کچھ توجہ کا ارتکاز بہتر ہورہا ہے۔ آہستہ آہستہ مغرب کے ذہن میں یہ بات آرہی ہے کہ داعش کا خطرہ کہیں زیادہ مہیب ہے۔تاہم ابھی اس خیال کو سوچ کی حقیقی تبدیلی ، خطرے سے نمٹنے کے لئے بنائی جانے والی حکمت ِعملی اور اٹھائے جانے والے اقدامات کی شکل اختیار کرنے میں بہت وقت لگے گا۔امریکی تذبذب میں فرانس، ترکی اورخلیجی ریاستیں بھی شامل ہیںکیونکہ یہ سب بھی داعش سے لڑنے کی نسبت شام میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اگردارالعوام اجازت دیتا تو اب تک برطانیہ بھی فرانس کے ساتھ داعش پر بمباری میں شریک ہوچکا ہوتا۔یورپ کومہاجرین کے جس مسئلے کا سامنا ہے ، اس کے پیچھے شام میں مداخلت کرنے کی پالیسی تھی۔ اب شام کی گلیوں میں جنم لینے والی شورش پیرس تک پہنچ چکی ہے۔
ہمیں اس وقت اسلامی دنیا میں گہری ہونے والی تفریق کی لکیر سے باخبر رہنا چاہیے۔ مغرب کے علاوہ ،کچھ ریاستیں، جیسا کہ ترکی اور بعض عرب ملک، اسد کے خلاف ہیں، تو دوسری طرف ایران اور حزب اﷲ اسد کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ان سب کے پیچھے ولادیمر پیوٹن پورے قدکے ساتھ موجود ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس تفریق میں ایک طرف امریکہ تو دوسری طرف روس ہے۔ مت بھولیں کہ ایران کچھ عرصے سے عراق میں بھی یہی لکیر کھینچ رہا ہے، لیکن اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اب تک داعش بغداد کے دروازے پر دستک دے چکی ہوتی۔ چنانچہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سنی ریاستوں کو اوہام نے گھیرا ہوا ہے۔ ترکی کے اردوان کا شام میں راستہ گم ہوجاتا ہے،ہمارے عرب دوست ایران اور حز ب اﷲ کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔امریکیوں کے سامنے بھی یہی مسئلہ ہے، اوراس پر مستزاد، انہیں شام میں روس کا کردار ہضم نہیں ہوپارہا ہے۔ ا س سے یوکرائن اور کریمیا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ بات سمجھنی آسان ہے کہ اس تمام تذبذب اور کنفیوژن کا حتمی طور پر داعش کو فائدہ ہورہا ہے۔
داعش کے خلاف سنی ریاستیں یا مغربی ممالک نہیں بلکہ شیعہ ریاستیں اور ان کی معاونت کے لئے میدان میں موجود، روس، اصل دفاعی حصار ہیں۔ اگر داعش کوشکست دی جانی ہے تویہ نیکی اس ا لائنس کے ہاتھوں سرانجام پائے گی۔ امریکہ نے جن جنگجو دستوں کو تربیت دے کر داعش کے مقابلے میں اتارنے کی کوشش کی، اس کا مطلق فائدہ نہ ہوا۔ یہ پروگرام مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکی خود میدان میں آکر لڑنے کے لئے تیار نہیں۔ وہ نہ تو اسد کے اقتدار کو طول پاتے اور نہ ہی حزب اﷲ کو شام میں کردار ادا کرتے دیکھنا چاہتے ہیں، اُن کی خواہش کہ کسی طرح داعش ختم ہوجائے۔ وہ اس کے مقابلے میں پراکسی دستے اتار کر کامیابی کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ نام نہاد ’’افغان جہاد‘‘ نہیں ہے۔ یہاں پاکستان یا افغانستان کے جہادی موجود نہیں جو امریکہ کے لئے بہت کم اجرت پر خود کو جھونک دیں۔
فضائی حملوں اور بمباری کے بعد کسی نے تو میدان میں اتر کر داعش کا سامنا کرنا ہے۔ ایسا کون کرے گا؟گفتار کے غازیوں کے پاس میدان میں آنے کا حوصلہ نہیں۔ شام کے حوالے سے وہ سب کاغذ کے شیر ثابت ہورہے ہیں۔خلیجی ممالک کھوکھلے ڈرم ہیں۔ اب کے پیٹرو ڈالر کے ذخائر بھی اتنے نہیں رہے جتنے ہوتے تھے۔ چنانچہ زمین پر فوجی دستے کس کے ہیں؟ اسد یا حزب اﷲ کے، باقی سب زبانی جمع خرچ ۔ ان کے پیچھے ایران اور روس۔ پیوٹن کی فضائیہ اسد کی مدد کے لئے موجود ہے۔ اس وقت داعش سے صرف شام یا عراق کو ہی نہیں، یورپی زندگی کو بھی خطرہ ہے، لیکن یہ خطرہ محض انسانیت کے لئے نیک تمنائوں کے اظہارسے ختم نہیںہوگا۔ اس کے مقابلے پر صرف شیعہ اتحاد اور ان کے پیچھے روس کھڑا ہے۔ انسانیت کو بچانے کے لئے یہی ڈھال میدان میں ہے۔ کیا امریکہ اور مغربی ممالک اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں؟

بشکریہ ایاز میر

متعلقہ مضامین

Back to top button