پاکستان

آخر کیوں پاکستان میں صرف پنجاب دہشتگردوں سے محفوظ

آخر کیوں پاکستان میں صرف پنجاب دہشتگردوں سے محفوظ دہشت گردی کیخلاف قومی ایکشن پلان کے سلسلے میں فاٹا میں ضرب عضب اور کراچی میں آپریشن عروج پر ہے۔ جب سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے بعض عناصر کے خلاف کارروائی شروع ہوئی ہے، پورا قومی ایکشن پلان سیاسی رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سندھ میں حکمرانی کرنے والی پی پی پی اور ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ پنجاب دہشت گردی کا گڑھ ہے، جنوبی پنجاب میں طالبان، لشکر جھنگوی کے بیسز موجود ہیں، لیکن انکے خلاف نون لیگ کی حکومت کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ دوسری طرف بریلوی جماعتوں اور اہل تشیع کا موقف ہے کہ پنجاب حکومت نے صرف سیاسی مخالفت کی بنیاد پر لاوڈ اسپیکر ایکٹ کی آڑ میں موذنین اور ایم ڈبلیو ایم کے ورکرز کو ہراساں کیا ہے، بعض کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا ہے۔ لیکن دہشت گردی میں ملوث عناصر کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ اسکی تائید خود حکومتی اور انتظامی ذرائع سے بھی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اپریل 2015ء میں آئی جی مشتاق سکھیرا نے ریجنل پولیس آفیسرز کو مراسلہ جاری کیا تھا، جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ پنجاب پولیس نیشنل ایکشن پلان کے تحت نتیجہ خیز کارروائیاں یقینی بنانے میں ناکام ہوگئی ہے، جس پر آئی جی پنجاب نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے موثر ایکشن کی ہدایت جاری کی تھی۔ صوبہ بھر کے آ ر پی اوز، سی سی پی اوز، سی پی اوز اور ڈی پی اوز کو جاری کردہ مراسلہ میں کہا گیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبہ بھر میں جنرل ہولڈ اپ کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کیلئے موثر کارروائیاں عمل میں لائی جائیں۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ابھی تک احکامات پر موثر طریقہ سے عمل نہیں کیا گیا۔ آئی جی پنجاب نے موقف اپنایا تھا کہ اس طرز عمل سے محکمہ کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔

اسی طح پنجاب میں فوج کی طرف سے فراہم کی گئی فہرستوں پر پکڑے گئے 1105 انتہا پسندوں کو مختلف اضلاع میں چھوڑ دیا گیا، جس پر کور ہیڈکواٹرز نے وزیراعلٰی پنجاب سے مداخلت کا مطالبہ کیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آرمی اور انتظامی افسروں کے تعاون سے 1105 ایسے افراد کی نشاندہی کی گئی تھی جو صوبے میں خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسکی تفصیل یہ ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد پاک فوج نے چاروں صوبوں میں دہشت گردوں اور انکے حمایتیوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنیکا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں چاروں وزرائے اعلٰی کی زیرنگرانی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں اور اس کو ایپکس کمیٹی کا نام دیا گیا تھا۔ یہ کمیٹی پاک فوج اور آئی ایس آئی کی مشاورت سے دہشت گردوں کو گرفتار کرنے اور انکے رابطہ کاروں کی کڑی نگرانی کا حکم دیتی ہے۔ پاک فوج نے ایپکس کمیٹی کو پنجاب میں 1105 افراد کی فہرست دی کہ ان کا براہ راست دہشت گردی سے تعلق ہے یا یہ انکے رابطہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ حکومت نے جب ان افراد کو گرفتار کر لیا تو اصولی طور پر انہیں قانون کے کٹہرے میں لا کر ان کے جرائم کے مطابق انہیں سزائیں دی جانی چاہئیں تھیں، لیکن پنجاب کے تمام ڈی سی اوز نے خود ہی جج بن کر انکی رہائی کا فیصلہ کر دیا۔ اس سے تو یہ تاثر سامنے آیا کہ نیشنل ایکشن پلان کو ناکام بنانے کیلئے بیوروکریسی نے ایک مرتبہ پھر ایکا کر لیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے تحت فورتھ شیڈول سے بھی ملزمان کو نکالا جا رہا ہے۔ کور ہیڈکوارٹرز نے بیوروکریسی کی اس کوتاہی کی وزیراعلٰی پنجاب سے شکایت کی ہے اور ان سے مداخلت کا مطالبہ بھی کیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ 1105 کو اب دوبارہ کیسے گرفتار کیا جائے گا؟ یہ لوگ اب غائب ہوچکے ہیں اور پھر صوبے میں امن و امان خراب کرنے کیلئے سامنے آئیں گے۔ وزیراعلٰی پنجاب جو صوبے میں گڈگورننس کے دعویدار ہیں، صرف اسی وقت پنجاب پولیس کو حرکت میں آنے کا حکم دیتے ہیں جب رائے ونڈ محل کو کوئی دھمکی موصول ہوتی ہے۔

مشتبہ افراد کی الیکٹرانک نگرانی کا فیصلہ:
ایک دفعہ پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عید کے بعد پنجاب میں 1600 مشتبہ دہشت گردوں کے ٹخنوں میں ٹریکنگ چپ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صوبائی انسداد دہشت گردی محکمے کے ذرئع کا کہنا ہے اس طرح ان کی نقل حرکت کی نگرانی کی جاسکے گی، قانون کے تحت ان افراد کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے، جبکہ انہیں اس سلسلے میں طلب بھی جاسکتا ہے، بیرون ملک سے یہ ڈیوائسز خرید لی ہیں اور عید کے بعد انہیں مشتبہ دہشت گردوں پر نصب کیا جائے گا۔ پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ صرف مشتبہ دہشت گردوں پر نظر رکھ سکیں گے بلکہ انہیں سخت گیر دہشت گردوں تک پہنچنے میں بھی مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت قانون نافذ کرنے والے ادارے مشتبہ دہشت گردوں کی الیکٹرانک نگرانی کرسکتے ہیں۔ البتہ پاکستان میں اس کا تجربہ پہلی مرتبہ کیا جا رہا ہے، تاہم کچھ دیگر ممالک اس ڈیوائس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے اراکین کی جانب سے مخصوص علاقے تک محدود رہنے کے حکم کی تکمیل نہ کرنے کی رپورٹس ملنے کے بعد حکومت نے ان چپس کو لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حال ہی میں ایک کالعدم تنظیم کے سرگرم رہنما نے پنجاب حکومت کی اجازت کے بغیر عمرہ تک کر لیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہم مشتبہ دہشت گردوں کی رہائش گاہوں کے باہر پولیس اہلکاروں کو تعینات نہیں کرسکتے، کیونکہ ہمارے پاس ان کے خلاف زیادہ شواہد موجود نہیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان میں سے کچھ سخت گیر دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان ڈیوائسز کے ذریعے ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جاسکے گی اور دہشت گردوں تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔ قانون کے تحت مشتبہ دہشت گرد صرف حکام کی اجازت کے بعد ہی محدود علاقے سے نکل سکتے ہیں اور اگر وہ اجازت کے بغیر ایسا کرتے ہیں تو انہیں حراست میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ یہ سوال باقی ہے جن 1105 مشتبہ دہشت گردوں سے متعلق عسکری ذرائع نے رپورٹ دی تھی کہ انہیں پنجاب انتظامیہ نے چھوڑ دیا ہے اور غائب ہوگئے ہیں، انہیں پنجاب انتظامیہ کس طرح پکڑتی ہے، تاکہ ان کے ٹخنوں میں ٹریکنگ چپس لگا کر انکی نگرانی کی جا سکے۔

اس سے پہلے بھی پنجاب حکومت درج ذیل اقدامات کا اعلان کرتی رہی ہے، لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
شورٹی بانڈز:
قومی ایکشن پلان کی روشنی میں پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں فورتھ شیڈول میں شامل ملزمان سے شورٹی بانڈز حاصل کئے ہیں، اس اقدام کی وجہ فورتھ شیڈول میں شامل ملزمان کے غائب ہونے کی خبروں کا منظر عام پر آنا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق آئی جی پنجاب سے کہا گیا ہے کہ وہ صوبہ بھر میں موجود فورتھ شیڈول میں شامل ملزمان سے فوری طور پر شورٹی بانڈز حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کریں اور 48 گھنٹے تک شورٹی بانڈز حاصل کرنے کے بعد ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ پنجاب حکومت کو یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جسم میں ٹریکر چپیں لگائے جانے کی اطلاعات ملنے کے بعد صوبہ بھر سے فورتھ شیڈول میں شامل درجنوں ملزمان غائب ہوچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق فورتھ شیڈول میں شامل ملزمان کی طرف سے دیئے جانے والے شورٹی بانڈ میں یہ تحریر کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک دشمن سرگرمی کا حصہ نہیں بنیں گے اور جب بھی وہ اپنی رہائش گاہ سے کسی دیگر مقام پر جائیں گے تو متعلقہ ایس ایچ او کو اس سلسلہ میں مطلع کریں گے۔

موبائل چپس:
فروری 2015ء میں فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی نگرانی کیلئے پنجاب حکومت نے 5 ہزار چپ خرید لیں تھیں۔ وزیراعلٰی پنجاب کے اعلان کے مطابق فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی کڑی نگرانی کیلئے پنجاب حکومت نے پانچ ہزار چپس خریدی گئیں، لیکن وہ پہلے مرحلے میں ہی سات سو افراد کے پاﺅں میں لگائی نہیں جاسکیں، ان پر عمل درآمد باقی ہے اور  جن مخصوص افراد کی کڑی نگرانی کے لئے انہیں چپس لگائی جائیں گی، ان کی ہر نقل و حرکت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر میں رہے گی۔ پہلے مرحلے میں سات سو اور دوسرے مرحلے میں آٹھ سو افراد کے پاﺅں میں چپس لگائی جائیں گی۔ ذرائع کے مطابق یہ چپس تین مختلف ممالک سے منگوائی گئی ہیں جن میں امریکا، ترکی اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں، چپ کی میعاد کم ازکم ایک برس زیادہ سے زیادہ تین برس ہے۔ اب ایک دفعہ پھر پنجاب حکومت کے شعبہ انسداد دہشت گردی نے اعلان کیا ہے کہ ٹریکنگ چپس خرید لی گئی ہیں، جبکہ یہ چپس تو فروری میں خریدی گئی تھیں جو کسی دہشت گرد یا مشتبہ دہشت گرد کے ٹخنے میں لگائی نہیں گئیں۔ اب اس اعلان میں صداقت کہاں تک ہوسکتی ہے کہ عید کے بعد مشتبہ دہشت گردوں کو ایک دفعہ پھر پنجاب انتظامیہ گرفتار کر پائے گی، تاکہ انکی نگرانی کے لئے انکے ٹخنوں میں ٹریکنگ چپس لگائی جاسکیں۔

الیکٹرونک کڑے:
فروری 2015ء میں جب پنجاب میں مشتبہ افراد کی الیکٹرانک چپ کے ذریعے نگرانی کا منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم  ہوگیا، تو الیکٹرانک چپ کی بجائے الیکٹرانک کڑے منگوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلٰی پنجاب نے پنجاب میں مشتبہ افراد کی نگرانی الیکٹرانک چپ کے ذریعے کرنے کا اعلان کیا تھا اور فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی نگرانی کا اعلان کیا تھا، تاہم اب پنجاب حکومت نے اس منصوبے کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ فورتھ شیڈول میں شامل 1600 افراد کی نگرانی کیلئے الکٹرانک کڑے منگوانے کا فیصلہ کیا، انتظامیہ کا موقف تھا کہ ان افراد کے کڑا اتارنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتہ چل جائے گا۔

مدارس کی خفیہ عکس بندی:
موسم سرما میں حکومت پنجاب کے ایک خفیہ ادارے نے راولپنڈی سمیت صوبہ بھر کے مدارس کی خفیہ عکس بندی کا عمل شروع کیا تھا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مانیٹرنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کو مرکزی ڈیٹابیس میں محفوظ کیا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کی سکیورٹی سے منسلک ایک خفیہ ادارے نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے صوبہ بھر کے تمام اضلاع میں واقع مدارس کی خفیہ عکس بندی کے لئے خصوصی ٹیمیں بنائی گئیں اور ان ٹیموں کے اراکین کو جدید موبائل فونز اور ٹیبلٹس دیئے گئے، جن کے ذریعے مدارس کے بیرونی مناظر کی تصاویر بنا کر انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے صوبائی وزارت داخلہ کے ایک خصوصی سنٹر میں موجود مرکزی ڈیٹا بیس میں بھجوائے جانے کا اعلان کیا گیا۔ اس عمل میں مدارس کے تمام بیرونی حصوں، سکیورٹی کے امور، راستے، استعمال کی جانے والی گاڑیاں اور آنے جانے والے افراد کی تصاویر بھی شامل تھیں، ان تصاویر کی مدد سے تجزیاتی رپورٹ بھی تیاری کا اعلان بھی کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ عمل مدارس کی رجسٹریشن کے جاری پراجیکٹ کا حصہ تھا، نہ ہی مانیٹرنگ کے نتیجے میں تیار ہونے والی کوئی تجزیاتی رپورٹ سامنے آئی اور نہ ہی دہشت گردی میں ملوث مدارس کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی، بلکہ یمن جنگ کے نام پر ایک دفعہ پھر مسلم لیگ نون کی حکومت نے دہشت گرد گروپوں کیساتھ ایکا کر لیا۔

جس طرح اس سے قبل  پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے القاعدہ اور طالبان کو باقاعدہ ایک خط لکھا تھا، جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ پنجاب میں حملے نہ کرائیں، باقی صوبوں سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ موصوف اس سے قبل غالباً 2011ء میں ایک کنونشن میں سرعام بھی ایسا ہی کچھ کہا تھا، جبکہ اس بات کے متعدد دوسرے شواہد بھی موجود ہیں کہ شریف برادران اور عسکریت پسند قوتوں کے درمیان پنجاب کے حوالے سے ایک "این آر او” موجود رہا ہے اور وہ یہ کہ طالبان اور ان کے اتحادی اس صوبے میں حملے نہ کرائیں۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ سال 2014ء کے دوران پنجاب جتنے بڑے صوبے میں صرف 41 چھوٹی کارروائیاں ہوئیں جبکہ اس کے مقابلے میں پختونخوا میں 325، کراچی میں 217، بلوچستان میں 340 اور فاٹا میں 230 حملے کرائے گئے، جن میں 26 خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے عسکری ذرائع جو خود ہی پنجاب میں قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ کئے جانے کی شکایت کرچکے ہیں، پنجاب میں دہشت گردوں کیخلاف سرگرمی سے ایکشن لینے سے گریزاں ہیں۔ پاکستانی عوام اس مخمصے کا شکار ہیں کہ جن کالعدم جہادی اور تکفیری گروپوں کی کھوکھ سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور کالعدم لشکر جھنگوی جیسی ملک دشمن قوتوں نے جنم لیا ہے، وہی کالعدم جماعتیں پنجاب سمیت ملک بھر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ملک کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت تمام ریاستی ادارے قومی ایکشن پلان پر پورے خلوص کیساتھ عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button