مقالہ جات

وہابی فرقہ کہاں سے اور کيسے وجود ميں آيا؟

سب سے پہلے وہابي فرقہ کو بنانے والا اور اس کو نشر کرنے کے لئے انتھک کوشش کرنے والا شخص محمد بن عبد الوہاب ہے جو بارهويں صدي ہجري کے نجدي علماء ميں سے تھا۔

ليکن يہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہابيت کے عقائدکو وجود بخشنے والا يہ پہلا شخص نہيں ہے بلکہ صديوں پہلے يہ عقيدے مختلف صورتوں ميں ظاہر ہوتے رہے ہيں،ليکن يہ ايک نئے فرقہ کي صورت ميں نہيں تھے اور نہ ہي ان کے زيادہ طرفدار تھے(وہابي حضرات اپنے فرقہ کو نيا فرقہ نہيں کہتے بلکہ کہتے ہيں يہ فرقہ ”سَلَف صالح” کا فرقہ ہے اور اسي وجہ اپنے کو سَلَفيہ کہتے ہيں) ۔

ان ميں سے چوتھي صدي ميں حنبلي فرقہ کے مشہور ومعروف عالم دين "ابومحمد بَربھاري” نے قبور کي زيارت سے منع کيا، ليکن خليفہ عباسي نے اس مسئلہ کي بھرپور مخالفت کي۔

حنبلي علماء ميں سے "عبد اللہ بن محمد عُکبَري” مشہور بہ ابن بطّہ(متوفي ۳۸۷ھ) نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي زيارت اور شفاعت کا انکار کيا(بن بطّہ کي سوانح حيات کتاب المنتظم،تاليف ابن جوزي جو ٣٨٧ھ ميں وفات پانے والوں کے سلسلہ ميں ہے اور سمعاني کي انساب ميں بطّي اور عکبري(بغداد سے دس فرسنگ کے فاصلہ پر ايک جگہ کا نام ہے) دونوں لفظوں کے تحت بيان ہوئي ہے، نيز خطيب بغدادي نے بھي اپني کتاب تاريخ بغداد،ج١٠ ص ٣٧١ ميں ابن بطہ کے حالات بيان کئے ہيں اور اس پر کچھ اعتراضات بھي کئے ہيں کہ ابن جوزي نے ان اعتراضات کا جواب بھي ديا ہے(۱)،ابن ماکولا نے بھي لفظ بطہ کے ذيل ميں ابن بطہ کے حالات زندگي کو مختصر طور پر لکھا ہے(٢)۔ اس کا اعتقاد تھا کہ حضرت رسول اکرم (ص) کي قبر منور کي زيارت کے لئے سفر کرنا گناہ ہے، اسي بناپر اس سفر ميں نماز تمام پڑھنا چاہئے اور قصر پڑھنا جائز نہيں ہے(۳)۔ اس کا اعتقاد تھا کہ حضرت رسول اکرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي قبر منور کي زيارت کے لئے سفر کرنا گناہ ہے، اسي بناپر اس سفر ميں نماز تمام پڑھنا چاہئے اور قصر پڑھنا جائز نہيں ہے۔

اسي طرح اس کا يہ بھي عقيدہ تھا کہ اگر کوئي شخص انبياء اور صالحين کي قبور کي زيارت کے سفر کو عبادت مانے، تو اس کا عقيدہ اجماع اور سنت پيغمبر اکرم (ص) کے خلاف ہے(۴)۔

ساتويں اور آٹھويں صدي کے حنبلي علماء کا سب سے بڑا عالم "ابن تيميہ” ہے اور محمد بن عبد الوہاب نے اکثر اور اہم عقائد اسي سے اخذ کئے ہيں۔

ابن تيميہ کے دوسرے شاگرد؛ جن ميں سے مشہور ومعروف ابن قيم جوزي ہے اس نے اپنے استاد کے نظريات و عقائد کو پھيلانے کي بہت زيادہ کوششيں کي ہيں۔

شيخ محمد بن عبد الوہاب کا سب سے اہم کارنامہ يہ تھا کہ اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کے بعد ان پر ثابت قدم رہا اور بہت سے نجدي حکمرانوں کو اپنے ساتھ ميں ملاليا اور ايک ايسا نيا فرقہ بناليا جس کے عقائد اہل سنت کے چاروں فرقوں سے مختلف تھے، اس ميں شيعہ مذہب سے بہت زيادہ اختلاف تھا جب کہ وہ حنبلي مذہب سے ديگر مذاہب کے مقابلہ ميں نزديک تھا۔

ان کو وہابي کيوں کہا گيا؟

وہابي لفظ فرقہ وہابيت کے باني کے باپ يعني عبد الوہاب سے ليا گيا ہے ليکن خود وہابي حضرات اس کو صحيح نہيں مانتے۔

سيد محمود شکري آلوسي(وہابيت کي طرفداري ميں) کہتا ہے: وہابيوں کے دشمن ان کو وہابي کہتے ہيں جبکہ يہ نسبت صحيح نہيں ہے بلکہ اس فرقہ کي نسبت اس کے رہبر محمد کي طرف ہونا چاہئے، کيونکہ اسي نے ان عقائد کي دعوت دي ہے، اس کے علاوہ شيخ عبد الوہاب اپنے بيٹے (محمدابن عبد الوہاب) کے نظريات کا سخت مخالف تھا(۵)۔ شيخ عبد الوہاب کي مخالفت کے علاوہ اس کا بھائي شيخ سليمان بھي محمد بن عبد الوہاب کا سخت مخالف تھا، ،اور باپ بيٹے کے درميان بہت سے مناظرات اور مباحثات بھي ہوئے، لہٰذا اس فرقہ کي اس کي طرف کيسے نسبت دي جاسکتي ہے جو خود ان نظريات کا سخت مخالف ہو۔

صالح بن دخيل نجدي (المقتطف نامي مجلہ مطبع مصر ميں ايک خط کے ضمن ميں) اس طرح لکھتا ہے: اس کے بعض معاصرين وہابيت کي نسبت صاحب دعوت (يعني محمد بن عبد الوہاب) کے باپ کي طرف حسد وکينہ کي وجہ سے ديتے تھے تاکہ وہابيوں کو بدعت اور گمراہي کے نام سے پہچنوائيں، اور خود شيخ کي طرف نسبت نہ دي (اور محمديہ نہيں کہا) اس وجہ سے کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ اس مذہب کے ماننے والے پيغمبر اکرم(ص) کے نام کے ساتھ کسي طرح کي شرکت نہ سمجھ بيٹھيں(۶)۔

مشہور و معروف مصري موٴلف احمد امين، اس سلسلہ ميں يوں رقمطراز ہے: محمد بن عبد الوہاب اور اس کے مريد اپنے کو موحّد کہلاتے تھے، ليکن ان کے دشمنوں نے ان کو وہابي کا نام ديا ہے،اور اس کے بعد يہ نام زبان زد خاص و عام ہوگيا(۷)۔

۔۔۔يہاں مناسب ہے بلکہ ضروري ہے کہ پہلے سلفيہ کے بارے ميں کچھ مطالب ذکر کئے جائيں جو وہابيت کي اصل اور بنياد مانے جاتے ہيں۔۔۔

سلفيّہ کسے کہتے ہيں؟

سلفيہ (يہ لوگ خود کو اس وجہ سے سلفيہ کہتے تھے کہ ان کا ادعا يہ تھا کہ وہ لوگ اپنے اعمال واعتقادات ميں سلف صالح يعني اصحاب پيغمبر (ص) اور تابعين (وہ لوگ جو خود تو پيغمبر اکرم (ص) کي زيارت نہ کرسکے ليکن انھوں نے اصحاب پيغمبر کے ذريعہ آنحضرت (ص) کے کلام اور گفتگو کو سنا ہے) کي پيروي کرتے ہيں)۔ حنبلي مذہب کے پيروکاروں کا ايک گروہ تھا جو چوتھي صدي ہجري ميں وجود ميں آيا،يہ لوگ اپنے اعتقادات کو احمد حنبل کي طرف نسبت ديتے تھے، ليکن بعض حنبلي علماء نے اس نسبت کے سلسلے ميں اعتراضات کئے ہيں۔

اس زمانہ ميں سلفيوں اور فرقہ اشاعرہ کے درميان کافي جھگڑے اور بحثيں ہوتي رہتي تھيں، اور دونوں فرقے کہتے تھے کہ ہم مذہب سلف صالح کي طرف دعوت ديتے ہيں۔

سلفيہ،فرقہ معتزلہ کے طريقہ کي مخالفت کرتا تھا،کيونکہ معتزلہ اپنے اسلامي عقائد کو يوناني منطق سے متاثر فلاسفہ کي روش بيان کرتے تھے،اور سلفيہ يہ چاہتے تھے کہ اسلامي عقائد اسي طريقہ سے بيان ہوں جو اصحاب اور تابعين کے زمانہ ميں تھا، يعني جو مسئلہ بھي اسلامي اعتقاد کے متعلق ہو اس کو قرآن وحديث کے ذريعہ حل کيا جائے، اور علماء کو قرآن مجيد کي دليلوں کے علاوہ دوسري دليلوں ميں غور وفکر سے منع کيا جائے۔

سلفيہ چونکہ اسلام ميں عقلي اور منطقي طريقوں کو جديد مسائل ميں شمار کرتے تھے جو صحابہ اور تابعين کے زمانہ ميں نہيں تھے لہٰذا ان پر اعتقاد نہيں رکھتے تھے، اور صرف قرآن و حديث کي نصوص اور ان نصوص سے سمجھي جانے والي دليلوں کو قبول کرتے تھے، ان کا ماننا يہ تھا کہ ہميں اسلامي اعتقادات اور ديني احکام ميں چاہے وہ اجمالي ہوں يا تفصيلي، چاہے وہ بعنوان اعتقادات ہوں يا بعنوان استدلال قرآن کريم اور اس سنت نبوي جو قرآني ہو اور وہ سيرت جو قرآن وسنت کي روشني ميں ہو؛ کے علاوہ کوئي دوسرا طريقہ اختيار نہيں کرنا چاہئے۔

سلفيہ دوسرے فرقوں کي طرح توحيد کو اسلام کي پہلي اصل مانتے تھے، ليکن بعض امور کو توحيد کے منافي جانتے تھے جن کو دوسرے اسلامي فرقے قبول کرتے تھے،مثلاً کسي مخلوق کے ذريعہ خدا کي بارگاہ ميں توسل کرنا يا اس کو وسيلہ قرار دينا، حضرت پيغمبر اکرم (ص) کے روضہ مبارک کي طرف منھ کرکے زيارت کرنا، اور روضہ اقدس کے قرب وجوار ميں شعائر (ديني امور) کو انجام دينا، يا کسي نبي اللہ يا اولياء اللہ کي قبر پر خدا کو پکارنا ؛ وغيرہ جيسے امور کو توحيد کے مخالف سمجھتے تھے، اور يہ اعتقاد رکھتے تھے کہ يہ امور(مذکورہ امور کو توحيد کے مخالف سمجھنا) سلف صالح کا مذہب ہے اور اس کے علاوہ تمام چيزيں بدعت ہيں جو توحيد کے مخالف اور منافي ہيں۔

سلفيہ کے لغوي اور اصلاحي معني:

سلفي گري کے لغوي معني گزر جانے والوں کي تقليد، ماضي کے رسم و رواج کي پرستش يا اپنے مر جانے والے اجداد کي اندھي پيروي کرنے کے ہيں۔ ليکن "سلفيت يا سلفيہ” (اصحاب السف الصالح) اصطلاحي معنوں ميں ايک فرقے کا نام ہے جو دين اسلام کي آڑ ميں خود کو سلف صالح کے پيروکار سمجھتے ہيں، اور اپنے اعمال، برتاؤ اور اعتقادات ميں پيغمبر (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)، صحابہ کرام اور تابعين کے تابع ہونے کي کوشش کرتے ہيں۔ يہ لوگ اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ اسلامي عقائد کو لازمي طور پر اسي طريقے سے بيان کيا جانا چاہيۓ جس طرح صحابہ اور تابعين کے دور ميں لاگو تھے، يعني اسلامي عقائد کو کتاب و سنت سے ہي ليا جانا چاہيۓ اور علماء کو قرآن سے باہر دلائل سے رجوع نہيں کرنا چاہيۓ۔ سلفي نظريات ميں عقلي اور منطقي طريقوں کي کوئي جگہ اور اہميت نہيں ہے اور صرف قرآن و حديث اور قرآني دلائل ہي ان کے لئے حجيّت ہيں(۸)۔

منابع اور مآخذ:

۱) منتظم، ج٧ ص١٩٣۔

٢) الاکمال، ج١ ص٣٣٠۔

۳) کتاب الرد علي الاخنائي، تاليف ابن تيميہ ص٢٧۔

۴) کتاب الرد علي الاخنائي، تاليف ابن تيميہ، ص٣٠۔

۵) تاريخ نجد، ص ١١١۔

۶) دائرة المعارف فريد وجدي ج١٠ ص ٨٧١ بہ نقل از مجلہ المقطف ص ٨٩٣۔

۷) زعماء الاصلاح في العصر الحديث ص ١٠۔

۸) تاريخ وہابيت، مؤلف: فقيہى، علي اصغر، مترجم/مصحح: اقبال حيدر حيدري

متعلقہ مضامین

Back to top button