مقالہ جات

جسارت کی معافی… قلم کمان حامد میر

پاکستان اتنا بھی کمزور نہیں جتنا کچھ پاکستانیوں نے سمجھ رکھا ہے۔ کچھ پاکستانیوں کا خیال تھا کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت عرب ممالک کا دبائو برداشت نہیں کر سکے گی اور آخر کار پاکستان کو سعودی عرب اپنی فوج بھیجنی پڑیگی۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ یمن کے بحران کے بارے میں پاکستان کی پارلیمینٹ کی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان یمنی باغیوں اور سعودی عرب کے تنازع میں فریق کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرے گا۔ سعودی حکومت کے وزراء نے ثالثی کی پیشکش کو مذاق قرار دیکر مسترد کر دیا۔ جب پاکستان پر دبائو بڑھا تو وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمینٹ کی قرارداد کے بارے میں وضاحت کر دی اور عرب دوستوں کو بتا دیا کہ اگر سعودی عرب پر کوئی حملہ ہوا تو پاکستان آ پ کے ساتھ کھڑا ہو گا لیکن فی الحال ہم ایران کے ذریعہ یمنی باغیوں پر سیز فائر کیلئے دبائو ڈالتے رہیں گے ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت یمنی باغیوں کے ساتھ نہیں بلکہ سعودی عرب کے ساتھ ہے لیکن یمن کی خانہ جنگی میں فریق نہیں بننا چاہتی ۔ افسوس کہ اس بحث میں کچھ کرم فرمائوں نے احتیاط سے کام نہیں لیا ۔ کچھ محترم علماء نے پارلیمینٹ کی قرارداد کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیدیااور پاکستانیوں کو حرمین شریفین کے تحفظ کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ کوئی پاکستان سے زیادہ سعودی عرب اور کوئی پاکستان سے زیادہ ایران کا وفادار نظر آیا۔ کسی نے مسلمانوں کے مابین خانہ جنگی کوکفر اور اسلام کی لڑائی بنا دیا اور کسی نے الزام لگا دیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے سعودی عرب میں ذاتی مفادات پاکستان کو کسی بڑی مشکل میں پھنسا دیں گے ۔ ایک سوال بڑا اہم تھا اور وہ یہ کہ سعودی عرب، مصر ، اردن، سوڈان، کویت ،قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی فوجوں کو ملایا جا ئے تو ان کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ بنتی ہے اور ان کے پاس ہزاروں ٹینک اور لڑاکا طیارے بھی موجود ہیں پھر یہ پاکستان کی فوج کو سعودی عرب کیوں لانا چاہتے ہیں؟ یہ دلیل بھی دی جاتی رہی کہ سعودی عرب کی طرف سے یمن کی ایک جائز قانونی حکومت کی مدد کی جا رہی ہے جس کے خلاف باغیوں نے اعلان جنگ کر رکھا ہے اور اس قانونی حکومت کی مدد کرنا کسی تنازعے میں فریق بننا نہیں ہے۔اس دلیل میں واقعی وزن ہے اور شاید اسی لئے وزیراعظم نواز شریف نے بھی منصور ہادی کی حکومت کی حمایت کی لیکن یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے ۔ یہ سوال اٹھانے کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا یا کسی کی تحقیر نہیں بلکہ صرف اور صرف صحافتی و سیاسی دیانت کے تقاضے پورے کرنا ہے ۔ جسارت کی معافی چاہتا ہوں ۔
سوال یہ ہے کہ 2012ء میں مصر میں محمد مرسی کی ایک آئینی و قانونی حکومت قائم ہوئی ۔محمد مرسی سے سیاسی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن وہ صدارتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے برسر اقتدار آئے ۔ 2013ء میں فیلڈ مارشل عبدالفتح السیسی نے مرسی کی قانونی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی ۔ قاہرہ میں اخوان المسلمون کے حامیوں پر ٹینک چڑھا دیئے گئے ۔ محمد مرسی کی جائز قانونی حکومت کیخلاف بغاوت پر عرب ممالک کی اکثریت خاموش رہی ۔جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ بھی خاموش رہا۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل بھی سوئی رہی البتہ نواز شریف حکومت کی طرف سے مصر میں فوجی بغاوت کی مذمت میں ایک بیان جاری کر دیا گیا۔ تھوڑا کہا بہت سمجھیں۔اگر عرب ممالک کے سربراہان محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت پر خاموش نہ رہتے تو شائد یمن بحران پر پاکستانی رائے عامہ کا موقف بھی مختلف ہوتا ۔ آج مصر میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کی ناجائز حکومت قائم ہے جو یمن کی جائز قانونی حکومت کی مدد کا ڈھونگ رچانے میں مصروف ہے ۔ مصر کے فوجی ڈکٹیٹر اور یمن کے باغیوں میں کوئی فرق نہیں۔فوجی ڈکٹیٹر نے امریکہ کی مدد سے محمد مرسی کی جائز قانونی حکومت کیخلاف بغاوت کی۔ یمن کے باغیوں نے ایران کی مدد سے منصور ہادی کی جائز قانونی حکومت کیخلاف بغاوت کی۔ اگر منصور ہادی کیخلاف بغاوت غلط ہے تو پھر محمد مرسی کے خلاف بغاوت بھی غلط تھی۔ جسارت ناگوار گزرے تو پھر معاف کر دیں ۔
سیاسی وتاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو سعودی عرب نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب پاکستان قائم نہیں ہوا تھا تو کسی عرب بادشاہ نے تحریک پاکستان کی حمایت نہیں کی تھی البتہ اخوان المسلمون کے بانی حسن البناءتحریک پاکستان کی حمایت کرنے والوں میں پیش پیش تھے ۔ حسن البناء اور قائد اعظم ؒ کے آپس میں براہ راست روابط تھے ۔ 28مئی 1947ءکو حسن البناء نے قائد اعظم ؒ کے نام اپنے خط میں تحریک پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پوری وادی نیل یہ یقین رکھتی ہے کہ آپ بہت جلد آزادی کی منزل حاصل کر لیں گے ۔ علامہ اقبال ؒ کی شاعری اور ان کی تحریروں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عرب بادشاہوں سے مایوس تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ خلافت اور ملوکیت میں کیا فرق ہے ۔ فرمایا
عرب خود را بہ نورِمصطفیٰ سوخت
چراغِ مردہ مشرق بر افروخت
ولیکن آں خلافت راہ گم کرد
کہ ائول مومناں را شاہی آموخت!
ترجمہ (قرن اول میں عربوں نے اپنے آپ کو نور مصطفیء سے منور کرکے مشرق کا مردہ چراغ روشن کیا لیکن اب وہ اس خلافت کی راہ گم کر بیٹھے جس نے مسلمانوں کو انداز حکمرانی سکھایا تھا )اقبال ؒ نے فرمایا
چیست تقدیرِ ملوکیت؟ شقاق
محکمی جستن زتدبیرِ نفاق
یعنی ملوکیت کا انداز حکمرانی کیا ہے ؟ پھوٹ ڈالنا اور نفاق سے استحکام حاصل کرنا ۔اقبالؒ
ایک طرف ملوکیت کے خلاف تھے دوسری طرف مغربی جمہوریت کوبھی پسند نہ کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنے خطبات میں روحانی جمہوریت کی بات کی ۔ کچھ ناقدین کے خیال میں اقبال ؒ نے ایک طرف بادشاہت کی مخالفت کی دوسری طرف افغانستان کے بادشاہوں کی شان میں قصیدے کہے۔
علامہ اقبالؒ کے افغان بادشاہ غازی امان اللہ اور نادر شاہ سے تعلقات ضرور تھے لیکن ان دونوں اور عرب بادشاہوں میں فرق تھا ۔ عرب بادشاہ برطانوی استعمار کی مدد سے اقتدار میں آئے جبکہ غازی امان اللہ نے 1919ء میں افغانستان کو برطانیہ کے اثر سے نکالنے کیلئے برطانوی فوج پر حملہ کر دیا ۔ اس نے افغانستان میں جمہوری اصلاحات متعارف کرائیں۔ علامہ اقبال ؒ کی نادر شاہ سے قربت کی وجہ یہ تھی کہ نادر شاہ نے ہندوستان کے حریت پسندوں کو افغانستان میں پناہ دے رکھی تھی ۔
علامہ اقبال ؒ نے 1929ء میں افغانستان میں بچہ سقہ کی حکومت کے خلاف نادر شاہ کی بھرپور اخلاقی و مالی امداد کی تھی اور اپنی زندگی بھر کی کمائی دس ہزار روپے انکی خدمت میں پیش کر دیئے ۔1933ء میں علامہ اقبال ؒ افغانستان گئے تو نادر شاہ نے برطانوی حکومت کو مطلوب حاجی صاحب ترنگزئی ؒ کے علاوہ ریشمی رومال تحریک کے قائدین مولانا محمد میاں اور مولانا محمد بشیر سے انکی ملاقاتیں کرائیں۔ نادر شاہ نے برطانوی حکومت کے باغیوں کو پناہ دی لیکن ذرا سوچئے ! آج فلسطینی حریت پسند در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ اسرائیل غزہ پر وحشیانہ بمباری کرتا ہے تو عرب لیگ کا کوئی ہنگامی اجلاس نہیں ہوتا لیکن یمن میں منصور ہادی کے خلاف بغاوت ہو جائے تو عرب لیگ ہنگامی اجلاس بلا کر صرف 40ہزار کی مشترکہ فوج بنانے کا اعلان کرتی ہے اور باقی فوج پاکستان سے مانگتی ہے ۔ پاکستان اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے فوج بھیجنے سے معذرت کرے تو کچھ عرب شیخ پاکستان کے بارے میں برادرانہ نہیں حاکمانہ لب ولہجہ اختیار کرلیتے ہیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف کی وضاحت کے بعد مزید وضاحت کیلئے شہباز شریف صاحب کو سعودی عرب بھیج دیا گیا ہے۔وہ سعودی عرب کو سو دفعہ اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلائیں لیکن ان سے یہ پوچھنے کی جسارت بھی تو کریں کہ اگر یمن میں منصور ہادی کی حکومت کے خلاف بغاوت ناجائز ہے تو پھر مصر میں محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت جائز کیسے ہو گئی ؟

 

متعلقہ مضامین

Back to top button